
کل جاب سے واپس گھر آتے ہوئے راستے میں گھڑی دیکھی تو نمازِ مغرب کا ٹائم ہو رہا تھا، سوچا کہ ساتھ والی گلی میں ہی تو مسجد ہے؛ مغرب پڑھ کر گھر جاتا ہوں۔ باہر کی گرمی اور پسینے سے شرابور جسم کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا، مسجد میں اے سی کی ٹھنڈک نے راحت و سکون سے مدہوش کردیا۔ مغرب کی نماز ادا کی، مسجد کے سکون اور ٹھنڈک سے بھرپور ماحول نے باہر نکلنے نہ دیا اور فیصلہ کیا کہ اب عشاء پڑھ کے ہی جاؤں گا، عشاء پڑھ کر جب دو گھنٹے کے بعد مسجد سے نکلا تو باہر اللہ پاک کے اے سی نے استقبال کیا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، نیچے زمین پر نگاہ پڑی تو دیکھا کہ روڈ کی سطح گیلی ہو چکی تھی، گیلا روڈ دیکھ کر خیال آیا کہ گلیوں اور روڈوں کی صفائی والا عملہ روڈ دھو کر گیا ہو گا، مگر پھر خیال آیا کہ صفائی والا عملہ تو رات کے پچھلے پہر آتا ہے ڈیوٹی پر، ابھی تو آدھی رات بھی نہیں ہوئی۔ فوراً موبائل نکال کر موسم کی صورتحال چیک کی تو پتا چلا کہ پچھلے دو گھنٹے لگاتار ابر رحمت برستا رہا ہے۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے میں کیا لکھ بیٹھا ہوں، گلیوں کا دھونا، روڈ صاف ستھرا۔
جی جناب! یہ حقیقت ہے، اور مزید حقیقت یہ کہ یہ میں اپنے وطن پاکستان کی ایک شام کی کہانی نہیں لکھ رہا بلکہ اسپین کے شہر بارسلونا کی کہانی لکھ رہا ہوں۔
جہاں واقعی زندہ قوم اور اچھے حکمران بستے ہیں۔ جہاں دو گھنٹے تو کیا، دو دن بھی لگاتار بارش ہوتی رہے تو بھی بارش رکنے کے پانچ منٹ بعد موسم خوشگوار اور گلیاں اور روڈ صاف ستھرے ہو جاتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دس پندرہ سال پہلے بارسلونا میں تیز بارش ہوئی تھی، گلیاں ایسے ہوگئی تھیں جیسے بحیرہ روم گلیوں میں آگیا ہو (بارسلونا شہر بحیرہ روم کے کنارے واقع ہے) لیکن اس کے بعد نکاسی کا ایسا انتظام کیا گیا کہ اب بارش بارسلونا میں رحمت لاتی ہے، زحمت نہیں۔ یہاں پر ایک بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا، گو کہ اس کا اس تحریر سے بظاہر کوئی تعلق نہیں لیکن ہمارے سبق حاصل کرنے کےلیے لکھ رہا ہوں۔ پچھلے سال بارسلونا کی ایک مشہور راہداری پردہشت گردی کا ایک واقع پیش آیا تھا، دہشت گرد نے ایک ٹرک لوگوں پر چڑھا دیا تھا اور بہت ساری معصوم جانیں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔ اس واقعے کے کچھ دنوں بعد میں اس جگہ گیا تو دیکھا کہ حکومت بارسلونا نے اس راہداری کے دونوں اطراف میں مضبوط اور آہنی رکاوٹیں لگا دی تھیں تاکہ دوبارہ کوئی ایسا حادثہ پیش نہ آئے۔
زندہ قومیں ایک ہی مرتبہ کسی حادثے کا شکار ہوتی ہیں اور پھر حادثے کے بعد ایسا سدباب کرتی ہیں کہ آئندہ عوام کو کوئی پریشانی نہ ہو۔
وطن عزیز پاکستان میں گزشتہ کئی سال سے سلسلہ جاری ہے، ہم ہر سال بارش اور سیلاب سے نقصان برداشت کرتے ہیں اور بے حسی اور بے بسی سے دوبارہ اگلے سال میں اسی آفت کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
حالیہ بارشوں سے جو حال لاہور کا ہوا ہے، ہم عوام ہی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم عقل رکھنے کے باوجود سیاستدانوں کی مکاریاں نہیں سمجھ سکے، پاکستانی عوام نے بہت الیکشن دیکھ لیے ہیں، اس نام نہاد کرپٹ انتخابی نظام سے کبھی بھی درد دل رکھنے والے حکمران نہیں آئیں گے۔
جب تک ہم ایماندار اور درد دل رکھنے والے حکمران منتخب نہیں کریں گے، تب تک بارش ہمارے لیے زحمت ہی بنتی رہے گی۔
موجودہ کرپٹ انتخابی نظام سے کرپٹ نمائندے ہی اسمبلیوں میں پہنچیں گے۔ اول تو وہ صرف اور صرف لوٹنے کے بارے میں سوچیں گے، الیکشن کمپین میں اپنا انویسٹ کیا ہوا اربوں روپیہ پورا کرنا ان کی پہلی ترجیح ہوگی۔ دوسرا اگر وہ کوئی ایسا کام جو عوام کی فلاح کےلیے ہو، شروع کریں گے بھی تو وہ ایسا منصوبہ ہو گا جس میں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کے چانسز ہوں گے۔
ہم بارش کے پانی کو رحمت ہی رہنے دے سکتے ہیں اگر نکاسی آب کا انتظام درست ہو۔ ہم اسی بارش کے پانی کو وسیع پیمانے پر زراعت کےلیے استعمال کرسکتے ہیں، اگر ڈیمز بنے ہوں تو اسی پانی کو اسٹور کیا جا سکتا ہے۔ بارش کا پانی ہمارے لیے رحمت ہی رہے، اس کےلیے ایسے نمائندے چننے کی ضرورت ہے جو پیغمبرِ اسلام رحمت اللعالمین ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عوام کا درد رکھنے والے ہوں۔ اور ایسے نمائندے تب ملیں گے جب ہمارا انتخابی نظام صاف اور شفاف ہوگا۔
پاکستان میں ایک بار پھر الیکشن کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ جو کرپٹ سیاستدان پچھلی حکومت اور ہمارے برے حالات کے ذمہ دار تھے، وہی اب نئے پارٹی پرچم کے سائے تلے اسمبلیوں میں آئیں گے؛ یعنی اگلے سال بھی لاہور اور پاکستان کی گلیاں وینس شہر کی گلیاں ہی لگیں گی۔
No comments:
Post a Comment