نیب کو ڈاکٹرعاصم اور ڈی ایچ اے سٹی کے معاملے پر دباؤ کا سامنا ہے، چیئرمین نیب

پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے میں رخنہ ڈالنے والوں کو معاف نہیں کیا جائےگا، چیئرمین نیب فوٹو: فائل
 اسلام آباد: چیئرمین نیب قمرزمان چوہدری کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عاصم اور ڈی ایچ اے سٹی سے متعلق تحقیقات کی وجہ سے قومی احتساب بیورو پر دباؤ ہے۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے قمر زمان چوہدری نے کہا کہ وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ نیب کسی کو ہراساں نہیں کررہی بلکہ صرف اپنی ذمہ داریاں نبھارہی ہے، ڈاکٹر عاصم ہوں یا ڈی ایچ اے کا معاملہ نیب پر دباؤ ہے لیکن ہمیں کرپشن کو آہنی ہاتھوں سے روکنا ہوگا، چھوٹی چھوٹی بدعنوانیاں بڑا بوجھ بن جاتی ہے، کرپشن کی وجہ سے اسکول اور اسپتال نہیں بن پاتے۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے ہمیں اپنےحصے کی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے نبھانی ہیں۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے میں رخنہ ڈالنے والوں کو معاف نہیں کیا جائےگا،سی پیک کے معاملے میں کرپشن برداشت نہیں کی جائےگی، اس کی شفافیت کے لئے چین بھی کام کررہا ہے۔

انگلینڈ کا منفرد ریستوراں

جہاں کھانا رولرکوسٹر کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے ۔ فوٹو : فائل
ایلٹن ٹاور انگلینڈ کے مشہور تفریحی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ دراصل تھیم پارک ہے جس کے اندر واٹر پارک اور جدیدسہولتوں سے آراستہ ہوٹل بھی موجود ہے۔ تفریح کے دوسرے ذرائع کے علاوہ ایلٹن ٹاورز رولرکوسٹر رائڈ کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ بچوں کی ٹرین نما رولر کوسٹر جب اونیچے، نیچے، اور بل کھاتے آہنی ٹریک پر بجلی کی سی تیزی سے دوڑتی ہے تو بہت سوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ اس سواری میں بیٹھ کر انسان جو سنسنی محسوس کرتا ہے، اس کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے۔
ایلٹن ٹاور میں اس سنسنی خیز سواری کے مزے لینے والے یہاں نوتعمیر شدہ ریستوراں میں اپنی پسندیدہ فاسٹ فوڈزسے بھی لطف اندوز ہونے لگے ہیں۔ اس ریستوراں کی انفرادیت یہ ہے کہ یہاں آنے والے مہمانوں کو فاسٹ فوڈ ویٹر پیش نہیں کرتے بلکہ ان کے آرڈر کیے گئے لوازمات رولرکوسٹر کے ذریعے ان تک خود بہ خود پہنچ جاتے ہیں! غالباً یہ برطانیہ کا پہلا ریستوراں ہے جہاں گاہکوں کو ان کی آرڈر کی ہوئی چیزیں پہنچانے کے لیے یہ منفرد طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ رولرکوسٹر ریسٹورنٹ نے ایلٹن ٹاورر کی شہرت اور بڑھادی ہے اور اس جگہ کا رُخ کرنے والوں کی تعداد میںاضافہ ہونے لگا ہے۔
رولرکوسٹر ریسٹورنٹ میں داخل ہونے والے گاہک کو ایک ملازم سیٹ پر بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے اور پھر اسے بتاتا ہے کہ وہاں موجود ٹیبلٹ کمپیوٹر کے ذریعے اپنی پسند کا آرڈر کیسے دیا جائے۔
ریستوراں کے وسط میں 26 فٹ اونچی کئی رولرکوسٹر نصب کی گئی ہیں۔ ہر ایک کے نچلے سرے کے اطراف چار میزیں لگائی ہیں۔ آرڈر کیا گیا کھانا رولرکوسٹر کے دو فولادی پائپوں سے بنے ٹریک پر گھومتا ہوا نچلے سرے تک پہنچتا ہے۔
کھانا دھاتی برتنوں میں بند ہوتا ہے جن  پر لگے ہوئے ٹیگ پر میز کا نمبر درج ہوتا ہے۔ چناں چہ متعلقہ میز پر بیٹھا ہوا فرد یا افراد نمبر دیکھ کر اپنا کھانا رولرکوسٹر پر سے اٹھا لیتے ہیں۔ دراصل ریستوراں میں فاسٹ فوڈ تیار کرنے کا نظام بالائی منزل پر رکھا گیا ہے۔ وہاں کاری گر آرڈر کے مطابق فاسٹ فوڈ ڈبوں میں بند کرتے ہیں اور نمبر لگا کر رولر کوسٹر پر رکھ دیتے ہیں۔ رولرکوسٹر پر گھومتے ہوئے ڈبے آہستہ رفتار کے ساتھ نیچے پہنچ جاتے ہیں۔ مشروبات کی سیل بند بوتلیں بھی اسی طرح اوپر سے نیچے سفر کرتی ہوئی پہنچتی ہیں۔ البتہ گرم مشروبات جیسے کافی، چائے وغیرہ روایتی طریقے سے پیش کیے جاتے ہیں۔ یعنی ویٹر خود پہنچاتے ہیں۔
دل چسپ بات یہ ہے رولرکوسٹر چوں کہ مسلسل حرکت میں رہتی ہے، اس لیے اس پر رکھے ہوئے کھانے کے ڈبے بھی متحرک رہتے ہیں۔ لہٰذا انھیں ٹریک یا بیلٹ پر سے اٹھانے کے لیے تھوڑی سی تیزی دکھانی پڑتی ہے۔ سستی سے کام لیا جائے تو پھر یہ ڈبے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ دوبارہ انھیں نیچے آنے میں تھوڑا سا وقت لگتا ہے۔ یوں ’ ہوا میں تیرتی‘ ہوئی خوراک کو ’ قابو‘ کرنا ایک دل چسپ اور نیا تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ غالباً اسی لیے رولرکوسٹر ریسٹورنٹ میں آنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

جاپان میں انوکھی واردات؛ 2 گھنٹوں میں 1400 اے ٹی ایم مشینوں پر نقب

 دو گھنٹے کے دوران 1400 اے ٹی ایم مشینوں سے ڈیڑھ ارب چُرا لیے گئے ۔ فوٹو : فائل
یاشی کارا جاپانی دارالحکومت ٹوکیو میں واقع پولیس ہیڈکوارٹر میں عوامی شکایات کے شعبے میں تعینات ہے۔ اس کی ذمہ داریوں میں عوامی شکایات سننا اور پھر نوعیت کے لحاظ سے ان کی درجہ بندی کرکے کارروائی کے لیے آگے بڑھا دینا ہے۔ رواں ماہ کی پندرہ تاریخ کو نوجوان پولیس اہل کار فرائض کی انجام دہی کے لیے حسب معمول ہیڈفون سَر پر چڑھائے اپنی سیٹ پر موجود تھی جب اسے ایک فون کال موصول ہوئی۔ کوئی شخص گھبرائے ہوئے لہجے میں بتارہا تھا کہ اسے ابھی بینک کی فون سروس سے پیغام  آیا ہے کہ میں نے اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے ایک لاکھ ین نکالے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میں نے کوئی رقم نہیں نکالی۔ وہ شخص ٹوکیو کے مضافاتی قصبے ہاچی جو کا رہائشی تھا۔
یاشی کارا اس کی شکایت نوٹ کر کے فارغ ہی ہوئی تھی کہ اسی نوعیت کی ایک اور فون کال موصول ہوئی۔ پھر تو جیسے فون کالز کا تانتا بندھ گیا۔ دو گھنٹے کے دوران بلاشبہ اسے سیکڑوں فون کالز موصول ہوچکی تھیں۔ اس کے دوسرے ساتھیوں نے بھی اس نوعیت کی متعدد فون کالیں وصول کیں۔ یہ کالز ٹوکیو کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی کی گئی تھیں۔
فون کرنے والوں کو ایک ہی شکایت تھی کہ اے ٹی ایم کے ذریعے ان کے اکاؤنٹ سے لاکھوں ین نکالے جاچکے ہیں مگر انھوں نے اپنا اے ٹی ایم کارڈ استعمال نہیں کیا۔یکے بعد دیگر موصول ہونے والی سیکڑوں شکایات پر پولیس ڈیپارٹمنٹ فوراً حرکت میں آگیا۔ پولیس کی تحقیقات کے نتیجے میں حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ دو گھنٹے کے دوران ملک بھر میں1400  آٹومیٹڈ ٹیلر مشینوں ( اے ٹی ایم) سے مجموعی طور پر ایک ارب چالیس کروڑ ین نکال لیے گئے تھے! امریکی ڈالر میں یہ رقم ایک کروڑ ستائیس لاکھ بنتی ہے۔
پولیس کے مطابق جن اے ٹی ایمز سے رقم نکالی گئی وہ سب کی سب مختلف سپراسٹورز میں نصب تھیں، جہاں عام طور پر خریداروں کا اژدھام ہوتا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ٹوکیو اور سولہ دوسرے شہروں میں بہ یک وقت انجام دی جانے والی کارروائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک ہی اور منظم گروہ ہے جس میں سو کے لگ بھگ افراد شامل ہیں۔ دو ہفتے گزرجانے کے باوجود اپنی نوعیت کی انوکھی اور ملکی تاریخ کی سب سے بڑی واردات میں ملوث کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوسکا۔ البتہ پولیس کا کہنا ہے کہ واردات میں جعلی کریڈٹ کارڈز اور اے ٹی ایم کارڈز استعمال کیے گئے جن کے لیے ڈیٹا جنوبی افریقا کے بینک سے حاصل کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ واردات کے تمام متأثرین کے اکائونٹ جنوبی افریقی بینک میں تھے

قبرستان میں پکنک ۔ ۔ ۔ ۔! یونانی قبیلے کی قدیم انوکھی روایت

قبرستان میں جاکر پکنک منانے کی روایت کا آغاز ساڑھے آٹھ سو سال قبل مسیح میں، قدیم یونامی شاعر ہومر کے دور میں ہوا تھا۔ فوٹو : فائل
ایتھنز: پکنک منانے کے لیے لوگ پُر فضا مقام کا انتخاب کرتے ہیں۔ سمندر کنارے واقع علاقوں کے لوگ اس مقصد کے لیے عام طور پر ساحل سمندر کا رخ کرتے ہیں مگر کیا کبھی آپ نے قبرستان کے اندر مُردوں کے درمیان بیٹھ کر پکنک منائی ہے ؟ یقیناً نہیں۔ قبرستان وہ مقام ہے جہاں لوگ اپنے پیاروں کو ایصال ثواب کرنے اور ایمان تازہ کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ قبروں کے درمیان بیٹھ کر کھانے پینے اور اہل خانہ کے ساتھ خوش گپیاں کرنے کا تصور ہی عجیب و غریب محسوس ہوتا ہے مگر بحیرۂ اسود کے کنارے واقع ایک گاؤں کے باسی باقاعدگی سے مردوں کے درمیان بیٹھ کر ضیافت اڑاتے ، خوش گپیوں اور کھیل کود میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
رزانا نامی اس گاؤں میں ایک یونانی قبیلے کے لوگ آباد ہیں جوپونتک کہلاتا ہے۔ ان کے آباء و اجداد 1914ء اور 1923ء کے بیچ بحیرۂ اسود کے کنارے آکر آباد ہوگئے تھے۔ ان کی بڑی تعداد یونان کے قتل عام کے دوران ترکوںکے ہاتھوں ماری گئی تھی جو باقی بچے انھیں آس پاس کے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ اسی دوران پونتک قبیلے کے بچے کچے لوگ بحیرۂ اسود کے کنارے آبسے تھے۔ اس قبیلے نے اپنی قدیم روایات کو زندہ رکھا جن میں قبرستان میں جاکر پکنک منانا بھی شامل ہے۔
ایسٹر کے بعد ہر سال اتوار کے روز (یہ اتوار سینٹ تھامس سنڈے بھی کہلاتا ہے) گاؤں کے بیشتر خاندان مضافاتی قبرستان کا رخ کرتے ہیں۔ کھانے پینے کا سامان اور میز کرسیاں بھی ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔ قبرستان میں پہنچ کر یہ قبروں کی درمیانی جگہ میں میز کرسیاں لگاتے ہیں۔ ان پر دیدہ زیب میز پوش بچھاکر روایتی کھانے چنے جاتے ہیں۔ ساتھ میں شراب رکھی جاتی ہے۔ سب سے آخر میں میز کے وسط میں موم بتیاں جلائی جاتی ہیں۔ اس روز اپنے پیاروں کی یاد میں اشک بہانے اور آہ و زاری کرنے کی اجازت نہیں ہوتی کیوں کہ یہ دن مُردوں کی عزت و تکریم کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ خاندان کے لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں اور بچے قبروں کے درمیان کھیل کود میں مگن ہوجاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قبرستان میں جاکر پکنک منانے کی روایت کا آغاز ساڑھے آٹھ سو سال قبل مسیح میں، قدیم یونامی شاعر ہومر کے دور میں ہوا تھا۔
رزانا کے باسیوں کی باقاعدہ ایک تنظیم موجود ہے جس کا مقصد پونتک باشندوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنا ہے۔ اس تنظیم کے صدر استینانوس اوفلیدس کہتے ہیں کہ 1900ء کے عشرے میں پونتس اور سابق سوویت یونین ریاستوں سے ہزاروں یونانی پونتک بحیرہ اسود کے ساحلوں پر آبسے۔ اپنی دوسری روایات کی طرح انھوں نے اس روایت کو بھی زندہ رکھا۔ تاہم یوں لگتا ہے کہ آئندہ برسوں میں یہ روایت دم توڑ دے گی کیوںکہ قبرستان میں پکنک منانے کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد محدود ہوتی جارہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بہت سے پونتک روزگار کے سلسلے میں جرمنی اور دوسرے ممالک میں جابسے ہیں۔ ان کے لیے سینٹ تھامس سنڈے کو آبائی گاؤں پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ کئی لوگ تنگ دستی کی وجہ سے گاؤں آنے جانے کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ اب بہت کم لوگ اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

بھملا میں خوابیدہ بدھا کا نایاب مجسمہ


پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کے علاقے خانپور میں جہاں گندھارا تہذیب سے منسلک کئی اہم مقامات ہیں، ان میں بھملا بھی شامل ہے۔
یہ دریائے ہارو کے ساتھ ایک پہاڑی پر موجود ہے۔ اس پہاڑی پر صلیبی شکل کا ایک بڑا سٹوپا، خانقاہ اور عبادت گاہیں ہیں۔ یہ پر سکون احاطہ تین اطراف سے پہاڑیوں میں گھرا ہوا ہے اور ایک طرف دریائے ہارو کا نظارہ ہے۔
اسی پہاڑی پر نیلے رنگ کی چھت کے نیچے لگتا ہے کہ بظاہر اینٹوں کا ایک ڈھیر جمع ہے۔ لیکن یہاں نایاب خوابیدہ بدھا ہے جو لگ بھگ 18 سو سال پرانا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ خطے کا سب سے قدیم بدھا ہو۔
عبدالحمید ہزارہ یونیورسٹی کے ماہرِ آثارِ قدیمہ ہیں اور گذشتہ تین سال سے اس مقام پر کھدائی کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں سے نکالی گئی مورتیوں کی وسکانسن یونیورسٹی کی مدد سے کی گئی کاربن ڈیٹنگ سے معلوم ہوا کہ یہ خوابیدہ بدھا تیسری صدی کا ہے۔
Image captionصرف مقامات کی کھدائی اور بحالی مسئلہ نہیں ہے، جو مقامات دریافت ہوئے ہیں، ان کی لوٹ مار پر بھی قابو پانا مشکل کام ہے
تاہم اس منظر اور بدھا کی حالت بہت خراب پائی گئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں: ’اس کو دو منزلہ عمارت میں محفوظ کیا گیا تھا، جس کی چھت خوابیدہ مجسمے کے اوپر گر گئی تھی۔ اس کی ایک ٹانگ اور جسم کے اور ٹکرے زمین پر ملے تھے۔‘
خوابیدہ بدھا کے جگہ کی کھدائی ابھی جاری ہے لیکن سٹوپا، خانقاہ اور عبادت گاہ میں نصب کچھ مورتیوں کو اسی مقام پر بحال کر لیا گیا ہے۔ بھملا کے مقام کو سنہ 1930 اور سنہ 1931 میں برطانوی ماہرِ آثارِ قدیمہ سر جان مارشل نے دریافت کیا تھا اور یہ اقوامِ متحدہ کے ثقافتی ورثے کے ادارے یعنی یونیسکو کی اس فہرست میں شامل ہے جس میں ایسے مقامات کو عالمی سطح پر تحفظ دیا گیا ہے۔
بھملا کا مقام اس لیے بھی اہم سمجھا جاتا ہے کیونکہ شمال سے جنوب جانے والے مسافروں اور بدھ بھکشوؤں کے لیے یہ پہلا پڑاؤ تھا۔ تاہم، خوابیدہ بدھا کی دریافت نے اس مقام کو بے مثال بنا دیا ہے۔
Image captionماہرِ آثارِ قدیمہ عبدالحمید گذشتہ تین سال سے اس مقام پر کھدائی کی نگرانی کر رہے ہیں
ماہرِ آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ ٹیکسلا اور آس پاس کے علاقے میں گندھارا تہذیب سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مقامات دریافت ہی نہیں ہوئے اور اس کی ایک وجہ وسائل کی کمی ہے۔
صوبے کے محکمہِ آثارِ قدیمہ نے اسی لیے حال ہی میں ان سنگ تراشوں کی مدد لینا شروع کی ہے جو مجسموں کی نقل تیار کرتے ہیں کیونکہ شعبہِ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی پاکستان میں قلت ہے۔ ان میں سے ایک افتخار احمد ہیں، جن کے دادا نے یہ کام برطانوی ماہرِ آثارِ قدیمہ کے ساتھ مزدور کے طور پر کام کر کے سیکھا۔ افتخار احمد نے بتایا کہ ان کے دادا نے پھر خود اپنے طور پر مورتیاں بنانے کی مشق کی۔
افتخار احمد کا کہنا ہے کہ انھوں نے کئی تاریخی مقامات پر بحالی کا کام کیا ہے لیکن خوابیدہ بدھا نہ صرف پاکستان میں اس قسم کا سب سے بڑا مجسمہ ہے، اس کا پتھر بھی غیر معمولی ہے۔
Image captionگندھارا فن کے محققین اور صاحبِ ذوق کے لیے بھملا کے مقام سے اہم نوادارات ملے ہیں
وہ بتاتے ہیں: ’ٹیرا کوٹا اور سٹکو کے بہت مجسمے کھودے گئے ہیں لیکن کنجور پتھر میں یہ آج تک نہیں نکلا۔ اس کو مکمل طور پر بحال کرنے کے لیے کم سے کم آٹھ دس سنگ تراش درکار ہوں گے جو اس کام کو جانتے ہوں جو دو تین ماہ میں کام مکمل کر سکیں گے۔ اور پھر کچھ پتھر تو مقام پر محفوظ ہیں، کچھ خریدنا پڑیں گے۔‘
صرف مقامات کی کھدائی اور بحالی مسئلہ نہیں ہے، جو مقامات دریافت ہوئے ہیں، ان کی لوٹ مار پر بھی قابو پانا مشکل کام ہے ۔ہزارہ یونیورسٹی کے عبدالحمید کا کہنا ہے کہ ’بھملا کے مقام کو لوٹا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، اب بھی کئی تاریخی مقامات سے مجسموں اور دیگر نوادرات کی چوری جاری ہے۔ یہ پھر پاکستان اور پاکستان سے باہر غیر قانونی طور پر بکتے ہیں۔‘
گندھارا فن کے محققین اور صاحبِ ذوق کے لیے بھملا کے مقام سے اہم نوادارات تو ملے ہیں لیکن اگلہ مرحلہ ان کو محفوظ اور بحال کرنے کا ہے۔ اور اس کے لیے محکمہ آثارِ قدیمہ مزید وسائل کی تلاش میں ہے، اس سے پہلے کہ یہ قیمتی ورثہ ہمیشہ کے لیے مسمار نہ ہو جائے۔

Senators want ban on foreign channels and ‘odd’ content

ISLAMABAD: While the officials in the Pakistan Electronic Media Regulatory Authority (Pemra) and the information ministry are stressing on a more democratic approach for implementing controls on electric media, members of the Senate Standing Committee on Information on Tuesday called for more autocratic restrictions.
The committee which met on Tuesday was chaired by Senator Kamil Ali Agha, who said that foreign entertainment programmes including drama serials were polluting the Pakistani culture.
“In a recent drama, I heard the words ‘Jai Mata Dee’ repeated several times. What are we trying to teach our children and what is Pemra doing,” Senator Agha said.
The chairman of the committee then asked the Pemra chairman, who was also attending the meeting, to stop airing foreign channels and argued that Indian news channels are not allowed to be aired in Pakistan as well.
“We need to protect our children and our values. You do not understand the negative impact of these foreign dramas, especially Indian ones, on our children,” he added.
Pemra only takes action against news channels and not against the channels on which Indian dramas are aired, he said.
Agreeing with him, PML-N’s Senator Sardar Mohammad Yaqoob Nasar said Pakistan needed to stop airing most foreign channels which aired ‘odd’ contents.
Explaining the ‘odd’ contents, the senator said: “One of these channels is the Discovery channel on which they show people eating haram and horrible things, which is really annoying.”
He added that channels should be forced to stop airing similar programmes.
Senator Saeed Ghani came to the Pemra chief’s rescue and said that airing foreign channels and content was legal and that most of the channels were aired due to public demand.
Pemra Chairman Absar Alam then told the committee that though the regulatory body did take action against channels, it also had to take public demand into consideration.
“This is what happened after family planning ads were banned. It was realised that there was public support for similar ads which is why we allowed them for the time being and a policy is being devised for this,” he said.
The committee was told that the regulatory body was taking action against news channels because of higher viewership and because they were so many in number.
“We have about 93 current affairs programmes being aired daily. Compared to this, there aren’t many entertainment programmes,” the Pemra chief said.
“We have also been directed by the Supreme Court to keep an eye on violations by news channels and we are focusing on controlling obscenity,” he said.
Members of the committee took a note of the regular absence of officials from the interior ministry when the issue of Bol TV was being discussed.
“If they don’t show up to the next meeting, we will report the matter in the Senate,” Senator Kamil Ali Agha said.
At this Senator Farhatllah Babar told the committee that the interior ministry had already refused to honour three previous notices of the Senate standing committee.

بھملا میں خوابیدہ بدھا کا نایاب مجسمہ


پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کے علاقے خانپور میں جہاں گندھارا تہذیب سے منسلک کئی اہم مقامات ہیں، ان میں بھملا بھی شامل ہے۔
یہ دریائے ہارو کے ساتھ ایک پہاڑی پر موجود ہے۔ اس پہاڑی پر صلیبی شکل کا ایک بڑا سٹوپا، خانقاہ اور عبادت گاہیں ہیں۔ یہ پر سکون احاطہ تین اطراف سے پہاڑیوں میں گھرا ہوا ہے اور ایک طرف دریائے ہارو کا نظارہ ہے۔
اسی پہاڑی پر نیلے رنگ کی چھت کے نیچے لگتا ہے کہ بظاہر اینٹوں کا ایک ڈھیر جمع ہے۔ لیکن یہاں نایاب خوابیدہ بدھا ہے جو لگ بھگ 18 سو سال پرانا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ خطے کا سب سے قدیم بدھا ہو۔
عبدالحمید ہزارہ یونیورسٹی کے ماہرِ آثارِ قدیمہ ہیں اور گذشتہ تین سال سے اس مقام پر کھدائی کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں سے نکالی گئی مورتیوں کی وسکانسن یونیورسٹی کی مدد سے کی گئی کاربن ڈیٹنگ سے معلوم ہوا کہ یہ خوابیدہ بدھا تیسری صدی کا ہے۔
Image captionصرف مقامات کی کھدائی اور بحالی مسئلہ نہیں ہے، جو مقامات دریافت ہوئے ہیں، ان کی لوٹ مار پر بھی قابو پانا مشکل کام ہے
تاہم اس منظر اور بدھا کی حالت بہت خراب پائی گئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں: ’اس کو دو منزلہ عمارت میں محفوظ کیا گیا تھا، جس کی چھت خوابیدہ مجسمے کے اوپر گر گئی تھی۔ اس کی ایک ٹانگ اور جسم کے اور ٹکرے زمین پر ملے تھے۔‘
خوابیدہ بدھا کے جگہ کی کھدائی ابھی جاری ہے لیکن سٹوپا، خانقاہ اور عبادت گاہ میں نصب کچھ مورتیوں کو اسی مقام پر بحال کر لیا گیا ہے۔ بھملا کے مقام کو سنہ 1930 اور سنہ 1931 میں برطانوی ماہرِ آثارِ قدیمہ سر جان مارشل نے دریافت کیا تھا اور یہ اقوامِ متحدہ کے ثقافتی ورثے کے ادارے یعنی یونیسکو کی اس فہرست میں شامل ہے جس میں ایسے مقامات کو عالمی سطح پر تحفظ دیا گیا ہے۔
بھملا کا مقام اس لیے بھی اہم سمجھا جاتا ہے کیونکہ شمال سے جنوب جانے والے مسافروں اور بدھ بھکشوؤں کے لیے یہ پہلا پڑاؤ تھا۔ تاہم، خوابیدہ بدھا کی دریافت نے اس مقام کو بے مثال بنا دیا ہے۔
Image captionماہرِ آثارِ قدیمہ عبدالحمید گذشتہ تین سال سے اس مقام پر کھدائی کی نگرانی کر رہے ہیں
ماہرِ آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ ٹیکسلا اور آس پاس کے علاقے میں گندھارا تہذیب سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مقامات دریافت ہی نہیں ہوئے اور اس کی ایک وجہ وسائل کی کمی ہے۔
صوبے کے محکمہِ آثارِ قدیمہ نے اسی لیے حال ہی میں ان سنگ تراشوں کی مدد لینا شروع کی ہے جو مجسموں کی نقل تیار کرتے ہیں کیونکہ شعبہِ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی پاکستان میں قلت ہے۔ ان میں سے ایک افتخار احمد ہیں، جن کے دادا نے یہ کام برطانوی ماہرِ آثارِ قدیمہ کے ساتھ مزدور کے طور پر کام کر کے سیکھا۔ افتخار احمد نے بتایا کہ ان کے دادا نے پھر خود اپنے طور پر مورتیاں بنانے کی مشق کی۔
افتخار احمد کا کہنا ہے کہ انھوں نے کئی تاریخی مقامات پر بحالی کا کام کیا ہے لیکن خوابیدہ بدھا نہ صرف پاکستان میں اس قسم کا سب سے بڑا مجسمہ ہے، اس کا پتھر بھی غیر معمولی ہے۔
Image captionگندھارا فن کے محققین اور صاحبِ ذوق کے لیے بھملا کے مقام سے اہم نوادارات ملے ہیں
وہ بتاتے ہیں: ’ٹیرا کوٹا اور سٹکو کے بہت مجسمے کھودے گئے ہیں لیکن کنجور پتھر میں یہ آج تک نہیں نکلا۔ اس کو مکمل طور پر بحال کرنے کے لیے کم سے کم آٹھ دس سنگ تراش درکار ہوں گے جو اس کام کو جانتے ہوں جو دو تین ماہ میں کام مکمل کر سکیں گے۔ اور پھر کچھ پتھر تو مقام پر محفوظ ہیں، کچھ خریدنا پڑیں گے۔‘
صرف مقامات کی کھدائی اور بحالی مسئلہ نہیں ہے، جو مقامات دریافت ہوئے ہیں، ان کی لوٹ مار پر بھی قابو پانا مشکل کام ہے ۔ہزارہ یونیورسٹی کے عبدالحمید کا کہنا ہے کہ ’بھملا کے مقام کو لوٹا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، اب بھی کئی تاریخی مقامات سے مجسموں اور دیگر نوادرات کی چوری جاری ہے۔ یہ پھر پاکستان اور پاکستان سے باہر غیر قانونی طور پر بکتے ہیں۔‘
گندھارا فن کے محققین اور صاحبِ ذوق کے لیے بھملا کے مقام سے اہم نوادارات تو ملے ہیں لیکن اگلہ مرحلہ ان کو محفوظ اور بحال کرنے کا ہے۔ اور اس کے لیے محکمہ آثارِ قدیمہ مزید وسائل کی تلاش میں ہے، اس سے پہلے کہ یہ قیمتی ورثہ ہمیشہ کے لیے مسمار نہ ہو جائے۔

Pakistan Election 2018 View political party candidates, results

https://www.geo.tv/election/candidates