سیرینا ولیمزنے ساتویں بارومبلڈن کا ٹائٹل جیت لیا

سیرینا ولیمزنے ساتویں بارومبلڈن کا ٹائٹل جیت لیا

سیرینا نے ومبلڈن جیت کر سابق جرمن کھلاڑی اسٹیفی گراف کا 22 مرتبہ گرینڈ سلم جیتنے کا ریکارڈ بھی برابر کردیا۔ فوٹو: اے ایف پی
لندن: امریکی ٹینس اسٹار سیرینا ولیمز نے خواتین کے سنگلز مقابلے میں جرمن کھلاڑی اینجیلک کیربر کوہراکر ساتویں بار ومبلڈن جیتنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔
ٹینس کی عالمی نمبر ایک کھلاڑی سیرینا ولیمز نے لندن میں ہونے والے ومبلڈن کے فائنل میں اپنی حریف جرمن کھلاڑی اینجیلک کیربر کو 5-7 اور 3-6 سے شکست دے کر ساتویں بار ومبلڈن کا ٹائٹل جیتنے کا اعزاز حاصل کیا جب کہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سابق جرمن کھلاڑی اسٹیفی گراف کا 22 مرتبہ گرینڈ سلم جیتنے کا ریکارڈ بھی برابر کردیا۔
اس سے قبل سیرینا ولیمز نے اپنا 21 واں گرینڈ سلم گزشتہ سال جیتا تھا جب انہوں نے ہسپانوی کھلاڑی گیربین بلانکو کو ہرا کر چھٹی بار ومبلڈن کا ٹائٹل جیتا تھا لیکن اس کے بعد سے وہ اب تک کوئی بڑا ٹورنامنٹ نہیں جیت پائی تھیں اور انہیں فرنچ اورآسٹریلین اوپن فائنل میں شکست کا سامنا کرنا پڑاتھا تاہم اس مقابلے میں وہ مسلسل ناکامیوں سے نکلتے ہوئے اپنا ساتواں ومبلڈن جیتنے میں کامیاب ہوگئیں۔
میچ کے بعد گفتگو کرتے ہوئے سیرینا ولیمز کا کہنا تھا کہ وہ ساتویں بار ومبلڈن جیتنے پر بہت خوش ہیں اور ان کی حریف جرمن کھلاڑی اینجیلک کیربر نے اچھا مقابلہ کیا، ان کے ساتھ کھیل کر مزہ آیا۔
34 سالہ امریکی کھلاٰڑی نے اپنا پہلا ومبلڈن 14 سال قبل جیتا تھا اور ان کا آئندہ ہدف سابق آسٹریلوی کھلاڑی مارگریٹ کورٹ کا ریکارڈ توڑنا ہے جنہوں نے 24 گرینڈ سلم جیت رکھے ہیں۔

12 شہری ڈنگی وائرس کا مزید شکار؛ متاثرہ افراد کی تعداد 776 ہوگئی

12 شہری ڈنگی وائرس کا مزید شکار؛ متاثرہ افراد کی تعداد 776 ہوگئی

اس موسم میں ملیریاکے مچھروں کی افزائش نسل بھی ہوتی ہے، شہری گھروں کے اطراف پانی جمع نہ ہونے دیں فوٹو :فائل
 کراچی:  شہر قائد میں مزید 12 افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوگئی، جس کے بعد متاثرہ افراد کی تعداد 776 تک پہنچ گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں مزید 12 افراد ڈنگی وائرس کا شکار ہو گئے ہیں جس کے بعد متاثرہ افراد کی تعداد 776 تک پہنچ گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق مون سون کے موسم میں ڈنگی وائرس کا موسم شروع ہو جاتا ہے جو نومبر تک جاری رہتا ہے، کراچی کاموجودہ موسم مچھروں کی افزائش نسل کے لیے بہترین موسم ہوتاہے،اس موسم میں مادہ مچھروں کے انڈوں سے لاروے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں ،بارش کے موسم مچھروں کی افزائش نسل کی نرسری کہا جاتا ہے،بارش اور مون سون موسم میں ایڈیزایجپٹی مادہ مچھروں کے انڈوں سے تیزی سے لاروے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں نیم اور نرم مٹی میں دیے جانے والے انڈوں سے لاروے نکلتے ہیں جس کی وجہ سے کراچی سمیت سندھ میں مچھروں کی بھرمارہوجائے گی، اس موسم میں جراثیم کش دواؤں کا اسپرے لازمی طور پر کرانا چاہیے۔
دوسری جانب سے ندی نالوں کی صفائی کروائی جائے اوران ندی نالوں میں بھی لاروے کوختم کرنے والا مخصوص کیمیکلزکااسپرے کیا جائے تاکہ انڈوں سے نکلنے والے لارووں کاخاتمے ہوسکے،ڈنگی وائرس پاکستان 2008 سے شروع ہے جو ہرسال درجنوں قیمتی جانوں کو نگل جاتا ہے۔
ماہرین نے عوام سے کہا ہے کہ وہ بارش کے موسم میں گھروں کے اطراف جمع ہونے والے پانی کو صاف کریں اور پانی میں مٹی کاتیل چھڑک دیں تاکہ مچھروں کی افزائش نسل نہیں ہوسکے،مٹی کا تیل پانی کے سطح پر ہونے کی وجہ سے پانی کے اندر موجود لاروں کو آکسیجن نہیں ملتی اورلاروے پانی میں ہی مر جاتے ہیں، ماہرین نے کہاکہ موجودہ موسم میں ملیریا کا مرض بھی سر اٹٔھاتا ہے ،ملیریاکا سبب بننے والے مچھروں کی بھی اسی موسم میں افزائش نسل تیزی سی ہوتی ہے، لہٰذا گھروں میں موجودہ پانی کو ڈھانپ کررکھا جائے اورگھروں کے اطراف پانی کو جمع نہ ہونے دیا جائے۔

عالمی سطح پر وائرل ہیپاٹائٹس کے امراض اور اموات میں اضافہ ہورہا ہے، سروے

عالمی طبی ادارے اپنی منصوبہ بندی میں ہیپاٹائٹس اور وائرس سے پھیلنے والی جگر کی بیماریوں کو نظرانداز نہ کریں،طبی ماہرین فوٹو:فایل
لندن: ایک مریض سے دوسرے میں پھیلنے والے امراض میں وائرل ہیپاٹائٹس کا گراف عالمی سطح پر بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے جو ایک چیلنج بن چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق 1990 کے عشرے سے ٹی بی، ایچ آئی وی اور ایڈز اور ملیریا کے مقابلے میں ہیپاٹائٹس وائرس سے پھیلنے والی مختلف بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اب سالانہ 14 لاکھ 50 ہزار سے زائد اموات ہیپاٹائٹس کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ طبی جریدے لینسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں امپیریل کالج لندن اور یونیورسٹی آف واشنگٹن، سیاٹل کے ماہرین نے ایک عالمی سروے کے بعد یہ انکشافات کئے ہیں، اس تفصیلی سروے میں 183 ممالک میں 1990 سے 2013 تک کا ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے۔
ہیپاٹائٹس کا مرض انسانی کیمیکل فیکٹری جگر کو نقصان پہنچاتا ہے، اس کی پانچ اقسام ہیپاٹائٹس اے ، بی ، سی ، ڈی اور ای ہے جو جگر میں سوزش، ناکارگی (سیروسس) اور آگے چل کر کینسر کی وجہ بھی بنتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 1990 میں جگر کینسر، وائرل ہیپاٹائٹس اور سیروسس سے اموات کی تعداد 8 لاکھ 90 ہزار تھی جو 2013 تک 14 لاکھ 50 ہزار سے تجاوز کرگئی اور اس میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے۔ اس لحاظ سے ہیپاٹائٹس اب دنیا کا سب بڑا متعدی ( انفیکشس) مرض بن چکا ہے کیونکہ 2013 میں ایڈز سے 13 لاکھ، ٹی بی سے 14 لاکھ اور ملیریا سے 8 لاکھ 55 ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے۔
ماہرین نے عالمی طبی اداروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی منصوبہ بندی میں ہیپاٹائٹس کی تمام اقسام اور وائرس سے پھیلنے والی جگر کی بیماریوں کو نظرانداز نہ کریں کیونکہ یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ عالمی چیلنج بنتی جارہی ہیں۔

امریکا میں دل کے اندرازخود گھل کرختم ہوجانے والے ’’اسٹینٹ‘‘ کی تیاری

صرف امریکا میں ہر سال 8 لاکھ 50 ہزار سے زائد مریضوں کو اسٹینٹ لگائے جاتے ہیں۔ فوٹو: بشکریہ ایبٹ کمپنی
نیویارک: امریکا میں فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی ( ایف ڈی اے) نے ایک ایسے اسٹینٹ کے انسانی استعمال کی منظوری دیدی ہے جو بند شریانوں کو کھولنے کے بعد دل کے اندرازخود گھل کرختم ہوجائے گا جب کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سالانہ لاکھوں افراد دل کی شریانوں کے بند ہوجانے سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
ایبٹ کمپنی نے اپنی ایجاد کوایبزورب اسٹینٹ کا نام دیا ہے جودل کی بند شریانوں کو کھولنے کے بعد دھیرے دھیرے گھل کرختم ہوجائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ دھاتی اسٹینٹ دل کی شریانوں میں موجود رہتے ہیں اورآگے چل کر کسی پیچیدگی کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔
ایبٹ کا یہ جدید اسٹینٹ پلاسٹک کے اجزا سے تیارکیا گیا ہے اور3 سال کے اندراندر گھل کر بالکل ختم ہوجائے گا، اس وقت جو اسٹینٹ موجود ہیں وہ دھاتی جالیوں  پر مشتمل ہوتے ہیں جن کی شکل  پین کے اسپرنگ جیسی ہوتی ہے جو چربی اوردیگر اجزا سے بند شریان میں جاکر کھل جاتے ہیں اور خون کا بہاؤ شروع ہوجاتا ہے جسے ’ اینجیوپلاسٹی‘ کا عمل کہتے ہیں۔
صرف امریکا میں  ہر سال 8 لاکھ 50 ہزار سے زائد مریضوں کو اسٹینٹ لگائے جاتے ہیں تاہم 2007 سے 2008 کے درمیان امریکا میں کئے گئے ایک سروے کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا  کہ اسٹینٹ والی شریانوں میں خون کے لوتھڑے بننے کی شرح بڑھ جاتی ہے اور ان کے کچھ سائیڈ افیکٹس بھی ہوتےہیں، اس کے بعد اندر رہ جانے والے اسٹینٹ کے متبادل پر کام شروع کیا گیا۔
دوسری جانب امراضِ قلب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اسٹینٹ کو انسانوں پر آزمانے کے کئی سال بعد ان کے نتائج کا جاننا بھی ضروری ہے تاکہ ان کے اثرات کو اچھی طرح پرکھ لیا جائے۔

ماں کا دودھ اور توجہ بچوں کو ذہین و کامیاب بناسکتی ہیں، تحقیق

اگر مائیں اپنے نوزائیدہ بچوں کو صرف 6 ماہ تک دودھ پلائیں تو وہ زیادہ فرمانبردار، سمجھدار اور ذہین ہوتے ہیں۔ تحقیق، فوٹو؛ فائل
ٹورانٹو: تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کے لیے والدین کی توجہ اور کم ازکم 6 ماہ تک ماں کا دودھ انہیں مستقبل میں ذہین اور کامیاب بناسکتے ہیں۔
’’ماں کی گود، بچے کی اوّلین تربیت گاہ ہے،‘‘ پاکستان اور جنوبی افریقا کے ماہرین کی حالیہ تحقیق سے اس پرانے مقولے کی سچائی ایک بار پھر ثابت ہوئی ہے۔
آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر عائشہ یوسف زئی کی قیادت میں پاکستانی دیہاتوں میں مقیم 1,302 غریب بچوں پر ایک مطالعہ کیا گیا، جس سے پتا چلا کہ اگر مائیں اپنے 2 سالہ بچوں کے 4 سال کی عمر میں پہنچنے تک ان پر توجہ رکھیں تو بڑی عمر میں یہ بچے زیادہ قابل اور کامیاب ثابت ہوسکتے ہیں۔ مطالعے میں شریک بچوں کی ماؤں کو تربیت دی گئی کہ کھیل کود اور بات چیت کے دوران بچوں کا مشاہدہ کیسے کیا جائے، اور ان کی مختلف حرکات و سکنات پر کس طرح ردِعمل کا اظہار کیا جائے۔
والدین اور بچوں میں بہتر رابطے سے یہ فائدہ ہوا کہ 4 سال کی عمر تک پہنچنے پر بچوں میں اکتساب (سیکھنے کی صلاحیت)، ذہانت، سماجی کردار، توجہ، یادداشت، خود پر قابو اور مزاج میں لچک جیسی خصوصیات بھی واضح طور پر بہتر ہوئیں۔ اس دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ بچوں کا خیال رکھنے اور ان کی تربیت کے معاملے میں والدین ہی زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔ اس مطالعے کے نتائج ’’دی لینسٹ گلوبل ہیلتھ‘‘ میں آن لائن شائع ہوئے ہیں۔
ایک اور مطالعے میں، جو یونیورسٹی آف گلاسگو کی جانب سے جنوبی افریقا کے بچوں پر کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ اگر مائیں اپنے نوزائیدہ بچوں کو صرف 6 ماہ تک دودھ پلائیں تو وہ زیادہ فرمانبردار، سمجھدار اور ذہین ہوتے ہیں۔ اس مطالعہ کے نتائج آن لائن تحقیقی جریدے ’’پبلک لائبریری آف سائنس، میڈیسن‘‘ (PLoS Medicine) چند روز پہلے شائع ہوئے ہیں۔
اخلاقی اور مذہبی نقطہ نگاہ سے شاید ان مطالعات میں کوئی نئی بات نہ ہو؛ مگر ان سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا ہے کہ مذہب کی اخلاقی تعلیمات، دنیاوی اعتبار سے بھی ہمارے لئے بے حد مفید ہیں۔

ریشے دار غذائیں اب سانس کے لیے بھی بہتر ثابت

ریشے دار خوراک امراضِ قلب، بلڈ پریشر اور دیگر امراض سے بچاتی ہے۔ فوٹو: فائل
اٹلانٹا: ریشے دار ( فائبر) غذاؤں کے بہت سے فوائد دریافت ہوئے اور اب معلوم ہوا ہے کہ اگر آپ پرسکون اور ہموار سانس لینا چاہتے ہیں تو کل سے ہی اپنی خوراک میں فائبر کا اضافہ کردیں کیونکہ اس میں سراسر فائدہ ہی ہے۔
امریکی ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں واقع نیشنل ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ایگزامنیشن سروے ( این ایچ این ای ایس) کی تازہ تحقیق کہتی ہے کہ ریشے دار غذائیں پھیپھڑوں کو تندرست اور سانس کی نالی کو درست رکھتی ہیں۔ اس ادارے نے حال ہی میں 2 ہزار افراد پر کئے گئے سروے کو شائع کیا ہے جس کے مطابق جن افراد نے اپنی خوراک میں فائبر یعنی ریشے دار خوراک کو ذیادہ رکھا ان کے پھیپھڑوں میں 68 فیصد بہتری دیکھی گئی جو نارمل کے مقابلے میں کہیں ذیادہ تھی۔
جن لوگوں نے ریشے والی خوراک کم کھائی تھیں ان میں سے صرف 50 فیصد افراد کے پھیپھڑے ہی درست اور پوری استطاعت سے کام کر رہے تھے، فائبر سے بھرپور غذائیں کھانے والے صرف 14 فیصد افراد کو سانس لینے میں کچھ دقت تھی جب کہ نہ کھانے والے والے 30 فیصد لوگوں میں یہ کیفیت دیکھی گئی۔
تحقیقی سروے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب پھیپھڑوں کا روایتی ٹیسٹ کرایا گیا تو ریشے دار خوراک کھانے والوں نے یہاں بھی بہترین کارکردگی دکھائی، اس ٹیسٹ کو مختصراً ایف وی سی کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق پھیپھڑوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے اور خوراک کے ذریعے ان کی دیکھ بھال کی جاسکتی ہے۔
واضح رہے کہ ریشے دار خوراک امراضِ قلب، بلڈ پریشر اور دیگر امراض سے بچاتی ہے۔ اس کے علاوہ پورے نظامِ ہاضمہ کی صحت بھی فائبر سے بہتر ہوتی ہے۔ سیب، شاخ گوبھی، ناشپاتی، گاجر، پالک، دلیہ، دو دالہ سبزیوں مثلاً تمام اقسام کی لوبیہ، السی کے بیج، پتے والی سبزیوں اور رسبری میں فائبر کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے۔

انگوٹھا چوسنے والے بچے بڑے ہوکرالرجی سے محفوظ رہ سکتے ہیں، تحقیق

اس عمل سے بچے اوائل عمر میں ہی مختلف جراثیم سے متاثر ہوکر ان امراض کے خلاف مزاحمت پیدا کرلیتے ہیں، تحقیق، فوٹو؛ فائل
ڈیونڈن: بچپن میں انگوٹھا چوسنے اور ناخن کترنے والے بچوں کی یہ بری عادت بلوغت میں ان کی لیے کچھ اس طرح سے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے کہ وہ الرجی سے دوررہتے ہیں۔
ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ بچوں کی یہ ناپسندیدہ عادت بالغ ہونے پر انہیں الرجی سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ اپنے بچپن میں انگوٹھے چوسنے والے افراد کو جب الرجی کے لیے جلد کا ٹیسٹ کرایا گیا تو ان کی بڑی تعداد نے اس ٹیسٹ میں منفی ( نگیٹو) ظاہر کیا۔
نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹاگو کی جانب سے کی گئی اس تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ انگوٹھے چوسنے اور ناخن چبانے کا عمل بچوں کے قدرتی دفاعی نظام کو تبدیل کردیتا ہے۔ مطالعے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اس عمل سے بچے اوائل عمر میں ہی مختلف جراثیم سے متاثر ہوکر ان امراض کے خلاف مزاحمت پیدا کرلیتے ہیں اور آگے چل کر ان میں الرجی سے متاثر ہونے کے خطرات کم ہوجاتے ہیں۔
اس کے لیے ماہرین نے 1037 افراد کا ان کی پیدائش سے لے کر 40 سال کی عمر تک کا ڈیٹا حاصل کیا اور والدین سے بچوں کی عادات کے بارے میں پوچھا کہ آیا 5، 7، 9 یا 11 برس کی عمر میں وہ انگوٹھے چوستے اور ناخن چباتے تھے یا نہیں۔ اس کے بعد 13 اور 32 سال کی عمر میں ان میں الرجی کے ٹیسٹ کیے گئے جس میں کم ازکم ایک الرجی کے بارے میں جلد کی حساسیت نوٹ کی جاتی ہے۔
تحقیق کے مطابق انگوٹے چوسنے اور ناخن چبانے والے افراد کی 38 فیصد تعداد جب کہ یہ عمل نہ کرنے والے افراد کی 49 فیصد تعداد میں الرجی کا ٹیسٹ مثبت آیا جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کم ازکم ایک الرجی سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بچے اگر جراثیم کا سامنا کریں تو وہ آگے چل کر مختلف امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

Pakistan Election 2018 View political party candidates, results

https://www.geo.tv/election/candidates