گوڈے گوڈے رم جھم

حالیہ بارشوں سے جو حال لاہور کا ہوا ہے، ہم عوام ہی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ
حالیہ بارشوں سے جو حال لاہور کا ہوا ہے، ہم عوام ہی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ
کل جاب سے واپس گھر آتے ہوئے راستے میں گھڑی دیکھی تو نمازِ مغرب کا ٹائم ہو رہا تھا، سوچا کہ ساتھ والی گلی میں ہی تو مسجد ہے؛ مغرب پڑھ کر گھر جاتا ہوں۔ باہر کی گرمی اور پسینے سے شرابور جسم کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا، مسجد میں اے سی کی ٹھنڈک نے راحت و سکون سے مدہوش کردیا۔ مغرب کی نماز ادا کی، مسجد کے سکون اور ٹھنڈک سے بھرپور ماحول نے باہر نکلنے نہ دیا اور فیصلہ کیا کہ اب عشاء پڑھ کے ہی جاؤں گا، عشاء پڑھ کر جب دو گھنٹے کے بعد مسجد سے نکلا تو باہر اللہ پاک کے اے سی نے استقبال کیا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، نیچے زمین پر نگاہ پڑی تو دیکھا کہ روڈ کی سطح گیلی ہو چکی تھی، گیلا روڈ دیکھ کر خیال آیا کہ گلیوں اور روڈوں کی صفائی والا عملہ روڈ دھو کر گیا ہو گا، مگر پھر خیال آیا کہ صفائی والا عملہ تو رات کے پچھلے پہر آتا ہے ڈیوٹی پر، ابھی تو آدھی رات بھی نہیں ہوئی۔ فوراً موبائل نکال کر موسم کی صورتحال چیک کی تو پتا چلا کہ پچھلے دو گھنٹے لگاتار ابر رحمت برستا رہا ہے۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے میں کیا لکھ بیٹھا ہوں، گلیوں کا دھونا، روڈ صاف ستھرا۔
جی جناب! یہ حقیقت ہے، اور مزید حقیقت یہ کہ یہ میں اپنے وطن پاکستان کی ایک شام کی کہانی نہیں لکھ رہا بلکہ اسپین کے شہر بارسلونا کی کہانی لکھ رہا ہوں۔
جہاں واقعی زندہ قوم اور اچھے حکمران بستے ہیں۔ جہاں دو گھنٹے تو کیا، دو دن بھی لگاتار بارش ہوتی رہے تو بھی بارش رکنے کے پانچ منٹ بعد موسم خوشگوار اور گلیاں اور روڈ صاف ستھرے ہو جاتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دس پندرہ سال پہلے بارسلونا میں تیز بارش ہوئی تھی، گلیاں ایسے ہوگئی تھیں جیسے بحیرہ روم گلیوں میں آگیا ہو (بارسلونا شہر بحیرہ روم کے کنارے واقع ہے) لیکن اس کے بعد نکاسی کا ایسا انتظام کیا گیا کہ اب بارش بارسلونا میں رحمت لاتی ہے، زحمت نہیں۔ یہاں پر ایک بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا، گو کہ اس کا اس تحریر سے بظاہر کوئی تعلق نہیں لیکن ہمارے سبق حاصل کرنے کےلیے لکھ رہا ہوں۔ پچھلے سال بارسلونا کی ایک مشہور راہداری پردہشت گردی کا ایک واقع پیش آیا تھا، دہشت گرد نے ایک ٹرک لوگوں پر چڑھا دیا تھا اور بہت ساری معصوم جانیں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔ اس واقعے کے کچھ دنوں بعد میں اس جگہ گیا تو دیکھا کہ حکومت بارسلونا نے اس راہداری کے دونوں اطراف میں مضبوط اور آہنی رکاوٹیں لگا دی تھیں تاکہ دوبارہ کوئی ایسا حادثہ پیش نہ آئے۔
زندہ قومیں ایک ہی مرتبہ کسی حادثے کا شکار ہوتی ہیں اور پھر حادثے کے بعد ایسا سدباب کرتی ہیں کہ آئندہ عوام کو کوئی پریشانی نہ ہو۔
وطن عزیز پاکستان میں گزشتہ کئی سال سے سلسلہ جاری ہے، ہم ہر سال بارش اور سیلاب سے نقصان برداشت کرتے ہیں اور بے حسی اور بے بسی سے دوبارہ اگلے سال میں اسی آفت کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
حالیہ بارشوں سے جو حال لاہور کا ہوا ہے، ہم عوام ہی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم عقل رکھنے کے باوجود سیاستدانوں کی مکاریاں نہیں سمجھ سکے، پاکستانی عوام نے بہت الیکشن دیکھ لیے ہیں، اس نام نہاد کرپٹ انتخابی نظام سے کبھی بھی درد دل رکھنے والے حکمران نہیں آئیں گے۔
جب تک ہم ایماندار اور درد دل رکھنے والے حکمران منتخب نہیں کریں گے، تب تک بارش ہمارے لیے زحمت ہی بنتی رہے گی۔
موجودہ کرپٹ انتخابی نظام سے کرپٹ نمائندے ہی اسمبلیوں میں پہنچیں گے۔ اول تو وہ صرف اور صرف لوٹنے کے بارے میں سوچیں گے، الیکشن کمپین میں اپنا انویسٹ کیا ہوا اربوں روپیہ پورا کرنا ان کی پہلی ترجیح ہوگی۔ دوسرا اگر وہ کوئی ایسا کام جو عوام کی فلاح کےلیے ہو، شروع کریں گے بھی تو وہ ایسا منصوبہ ہو گا جس میں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کے چانسز ہوں گے۔
ہم بارش کے پانی کو رحمت ہی رہنے دے سکتے ہیں اگر نکاسی آب کا انتظام درست ہو۔ ہم اسی بارش کے پانی کو وسیع پیمانے پر زراعت کےلیے استعمال کرسکتے ہیں، اگر ڈیمز بنے ہوں تو اسی پانی کو اسٹور کیا جا سکتا ہے۔ بارش کا پانی ہمارے لیے رحمت ہی رہے، اس کےلیے ایسے نمائندے چننے کی ضرورت ہے جو پیغمبرِ اسلام رحمت اللعالمین ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عوام کا درد رکھنے والے ہوں۔ اور ایسے نمائندے تب ملیں گے جب ہمارا انتخابی نظام صاف اور شفاف ہوگا۔
پاکستان میں ایک بار پھر الیکشن کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ جو کرپٹ سیاستدان پچھلی حکومت اور ہمارے برے حالات کے ذمہ دار تھے، وہی اب نئے پارٹی پرچم کے سائے تلے اسمبلیوں میں آئیں گے؛ یعنی اگلے سال بھی لاہور اور پاکستان کی گلیاں وینس شہر کی گلیاں ہی لگیں گی۔

ریحام خان کی کتاب منظرعام پر آگئی، عمران خان سے متعلق انکشافات

عمران خان نے مجھے پلک جھپکائے بغیر گھورنا شروع کیا، ریحام خان فوٹو: فائل
عمران خان نے مجھے پلک جھپکائے بغیر گھورنا شروع کیا، ریحام خان فوٹو: فائل
اسلام آباد: پاکستانی سیاست میں بھونچال مچانےوالی ریحام خان کی کتاب بالآخر منظر عام پر آگئی جس میں انہوں نےاپنی زندگی کے حوالے سے کئی انکشافات کیے ہیں۔
گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کی سابق اہلیہ ریحام خان کی کتاب نے پاکستانی سیاست میں ہلچل مچادی تھی، کتاب شائع ہونے سے قبل ہی اپنے متنازع متن کے باعث خبروں کی زد میں آگئی تھی، سوشل میڈیا پر جاری کیے جانےوالے کتاب کے متن میں عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں پر الزام تراشی کی گئی تھی۔ اپنی کتاب میں ریحام خان نے عمران خان پر اقرباپروری اور جنسی ہراسگی کا الزام  بھی عائد کیا تھا۔
پاکستانی سیاست میں طوفان مچانے والی ریحام خان کی کتاب بالآخر منظر عام پر آہی گئی۔ ریحام خان کی کتاب کا نام ان ہی کے نام پر یعنی ’’ریحام خان‘‘ہے۔ عمران خان کی سابق اہلیہ نے ٹوئٹ کرتے ہوئے اطلاع دی کہ ان کی کتاب برطانیہ میں کتابی شکل میں جب کہ دنیا بھر میں آن لائن دستیاب ہے۔
ریحام خان نے ایک اور ٹوئٹ کرکے بتایا کہ ان کی کتاب  آن لائن ویب سائٹ امیزون ڈاٹ کام پر بھی دستیاب ہے جہاں سے اسے خریدا جاسکتا ہے۔ ریحام خان کی کتاب کے 365صفحات اور 30چیپٹر(ابواب)ہیں جب کہ کتاب  کی قیمت 9.99 ڈالرز ہے جو تقریباً 1200 پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ ریحام خان نے لکھا ہے کہ کتاب کو پبلش کرنے میں میرے بیٹے ساحرنے میرا بہت ساتھ دیا۔

خاندانی پس منظر

ریحام خان نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ ان کے والدین ساٹھ کی دہائی میں پاکستان سے لیبیا آئے اوروہیں ان کی پیدائش ہوئی، ہم دوبہنیں اور ایک بھائی ہیں جب کہ والد لیبیا میں ڈاکٹرتھے۔

پہلے شوہر سے ناچاقی

ریحام خان نے  کتاب میں اپنے پہلے شوہر اعجاز کے حوالے سے چشم کشاانکشافات کیے ہیں۔  کتاب میں انہوں نے کہا کہ میرے بچے اردو، پشتو اور پنجابی روانی سے بولتے تھے، ریحام خان نے اپنی بیٹی ردھا کی پیدائش کا ذکر کیا، ردھا برطانیہ کے اسپتال پہنچنے کے پانچ منٹ بعد ہی دنیا میں آگئی، ردھا پیدائش کے بعد مسلسل پندرہ منٹ روتی رہی جیسے دنیا میں آمد پر احتجاج کر رہی ہو، میرا بیٹا ساحر ردھا کا خیال رکھتا، گودمیں لے کراسے فیڈر پلاتا رہتا، ساحر رات کو اٹھ کر چلتا رہتا ریحام خان نے کتاب میں اپنے سابق شوہر کے ظلم کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھا کہ  اعجاز نیند سے جگانے پر اس کی پٹائی کرتے، بچوں کو مغربی کھانوں پر لگانے پر اعجاز اکثر طویل لیکچر دیتے، اعجاز بچے کے پیزا کھانے کی خواہش پر بھی بڑھک اٹھتے۔

دوسری بیٹی کی پیدائش

ریحام خان نے مزید لکھا ہے میری دوسری بیٹی انایا کی پیدائش 8 مئی 2003 کو صبح آٹھ بجے ہوئی، اگست 2003 میں اعجاز نے مجھے پاکستان میں چک شہزاد رہنے کیلئے بھیج دیا۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: ریحام خان معافی مانگیں

عمران خان سے پہلی ملاقات

کتاب کے متن کے مطابق ریحام خان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان  سے ملاقات کے لئے میں نے اپنے گارڈ کو ہمہ وقت ساتھ رہنے کی ہدایت کی، پہلے پارٹی سیکرٹریٹ کے ایک ٹھنڈے اور بے ترتیب بیڈ روم میں نعیم الحق نے میرا انٹرویو کیا پھر نعیم الحق میری کار میں بیٹھ گئے اور ہم بنی گالہ آ گئے، نعیم الحق آگے آگے چل رہے تھے، میرے گارڈ نے کان میں سرگوشی کی، یہ آدمی ٹھیک نہیں۔ مجھےایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں سر سے پاؤں تک بلیک لباس میں عمر رسیدہ آدمی پشت کر کے کھڑا تھا، کالے لباس والا آدمی کوئی اور نہیں لیجنڈ (عمران خان) خود تھا، انہوں نے مجھے پلک جھپکائے بغیر گھورنا شروع کیا، نعیم الحق نے بطور اینکر میرا تعارف کروایا، میں نے ٹخنوں تک لمبی قمیض اوپر بلیک جمپر اور بلیو ٹراؤزر پہن رکھا تھا، میں نے لباس کا انتخاب سنجیدہ نظر آنے کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا، تو آپ کہاں سے ہیں، میز کے دوسری طرف سے مسلسل گھورتے ہوئے سوال پوچھا گیا، برطانیہ سے، میں نے مختصر جواب دیا۔

عمران کی بیٹے سے جھجھک

عمران خان سے شادی کے بعد کے واقعات کے حوالے سے کتاب میں لکھا گیا ہے کہ عید کے دن بنی گالہ میں عمران خان کے ساتھ بنائی گئی تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ میرے بیٹے نے عمران خان کے گلے میں بازوڈالناچاہالیکن عمران پیچھے ہٹ گیا۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: ہتک عزت کا دعویٰ کروں گی
واضح رہے کہ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ نے بھی کتاب کے متن پر اعتراض اٹھاتے ہوئے ریحام خان کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ریحام خان کی کتاب برطانیہ میں شائع ہوئی تو وہ ان پر ہتک عزت کا دعویٰ کریں گی۔ جس پر ریحام خان کا کہنا تھا کہ ابھی میری کتاب شائع نہیں ہوئی تو یہ کسی کی ساکھ کو کیسے نقصان پہنچا سکتی ہے۔

ن لیگ نشانے پر ہے لیکن وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا، شہباز شریف

انتظامیہ اور پولیس زیادتیوں اور مظالم کا سلسلہ بند کریں، صدر مسلم لیگ (ن) فوٹو:فائل
انتظامیہ اور پولیس زیادتیوں اور مظالم کا سلسلہ بند کریں، صدر مسلم لیگ (ن) فوٹو:فائل
 لاہور: مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے کارکنوں کی گرفتاریوں پر پنجاب کی نگراں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ن لیگ کو بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا، گھروں پر چھاپے مارے گئے، دروازے توڑے گئے، لاہور میں پولیس نے غنڈہ گردی کی، حامیوں کو بدترین مظالم کا نشانہ بنایا اور خواتین کی توہین کی، ہمارے ساتھ کھلا ظلم، زیادتی اور دھاندلی ہورہی ہے، الیکشن کو داغدار کیا جارہا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ 30 تاریخ تک کسی سیاسی کارکن کو گرفتار نہ کیا جائے، اس کے باوجود وزیراعلیٰ کی براہ راست نگرانی میں سیکڑوں کارکن گرفتار کیے گئے، ن لیگ کو بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، کچھ تو دال میں کالا ہے، یہ کیا تماشا ہے کہ دفعہ 144 کے باوجود عمران خان لاہور میں جلسہ کررہے ہیں لیکن ہمیں اجازت نہیں دی جارہی۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ تمام مظالم کے باوجود ہر حال میں نواز شریف کے استقبال کے لیے کل ائرپورٹ جائیں گے، انتظامیہ اور پولیس اپنی چیرہ دستیاں اور مظالم بند کریں، ان اقدامات کے ذمہ دار اچھی طرح کان کھول کر سن لیں کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا، ہماری حکومت آئی تو آپ کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔

قومی ٹیم کے کپتان سرفرازاحمد بڑی ذمہ داری سنبھالنے سے بچ گئے



https://t.co/0bJdgWfchK

https://twitter.com/DailyQudrat/status/1017363368745820160

عدالتی پری پول رِگنگ

چیف جسٹس صاحب نے بلاشبہ بہت اچھا کام کیا ہے لیکن یہ کام کرنے کےلیے غلط وقت کا انتخاب کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)
چیف جسٹس صاحب نے بلاشبہ بہت اچھا کام کیا ہے لیکن یہ کام کرنے کےلیے غلط وقت کا انتخاب کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)
اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو جمہوریت کا لفظ پہلی مرتبہ 507 قبل مسیحمیں قدیم یونان کے شہر ایتھنز میں استعمال ہوا۔ اس جمہوریت کا بانی Cleisthenes تھا۔ یہ براہ راست جمہوریت تھی یعنی اس نظامِ جمہوریت میںعوام ہی قانون دان تھے اور عوام براہ راست سرکاری عہدیداروں اور ججوں کا انتخاب کرتے تھے۔ عورتوں، 20 سال سے کم عمر بچوں، غلاموں اور غیرملکیوں کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل نہیں تھا۔ یہ جمہوریت کی کمزور ترین شکل تھی۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، جمہوری نظام میں بھی جدت آتی گئی اور ووٹنگ کا نظام بھی پہلے سے زیادہ صاف اور شفاف ہوتا گیا۔
لیکن جدید دور کے مسائل بھی جدید ہی ہوتے ہیں۔
پہلے پہل الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کو تبدیل کرنا، جعلی ووٹ ڈلوانا، ووٹ چوری کرنا جیسے معاملات زیر غور رہتے تھے اور ایسا کرنے کے عمل کو انتخابات میں دھاندلی (الیکشن رِگنگ) کہا جاتا تھا۔ پھر نئی دنیا میں ایک نئی اصطلاح استعمال ہوئی ’’پری پول رِگنگ‘‘ (pre-poll rigging) یعنیالیکشن سے پہلے دھاندلی کرنا۔ اس میں الیکشن کروانے والے عملے کو ساتھ ملانا اور اپنی مرضی کے حلقے میں عوام کے ووٹ بنوانا اور الیکشن سے پہلے ہی بیلٹ باکسز میں ووٹ ڈال دینا جیسے اقدامات شامل تھے۔ اس طرح کی رِگنگ کو روکنے کےلیے باقاعدہ سزائیں متعین کی گئیں اور انہیں قانون کا حصہ بھی بنا دیا گیا۔ لیکن اکیسویں صدی میں اس تمام پری پول رِگنگ میں ایک نئی قسم کی رِگنگ کا بھی اضافہ ہوگیا ہے اور اس رِگنگ کو ایجاد کرنے کا سہرا پاکستان کے سر جاتا ہے۔ اس رِگنگ کا نام ہے عدالتی پری پول رِگنگ۔ آئیے عدالتی پری پول رِگنگ کا مطالعہ کرتے ہیں۔
پاکستان میں پچھلے دس سال سے جمہوری نظام تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2013 میں کسی جمہوری سیاسی حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور اب 2018 میں ن لیگ نے اپنی حکومت کے پانچسال مکمل کیے ہیں۔ گو کہ جمہوری نظام چل رہا ہے لیکن الیکشن والے سال میں برسراقتدار پارٹیوں کے وزیراعظم کو عدالتوں کے ذریعے نااہل کرنے اور اپوزیشن جماعت کے کاموں کی تعریف کرنے کی روایت بھی قائم ہوئی ہے جس کا براہ راست اثر الیکشن پر پڑتا ہے اور برسراقتدار پارٹی الیکشن ہار جاتی ہے۔ الیکشن سے چند ماہ پہلے برسراقتدار پارٹیوں کی عدالتوں کے ذریعے کردار کشی اور اپوزیشن پارٹیوں کی حوصلہ افزائی پری پول رِگنگ کی جدید شکل ہے اور پوری دنیا میں شاید پاکستان وہ واحد ملک ہے جو عدالتی پری پول رِگنگ کا شکار ہوا ہے۔
پاکستان میں عدالتیں کس طرح پری پول رِگنگ کا حصہ بن رہی ہیں؟ اس کی تازہ مثال الیکشن سے پچیس دن پہلے چیف جسٹس پاکستان کا شیخ رشید کے ہمراہ راولپنڈی زچہ بچہ اسپتال کا دورہ ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے یکم جولائی 2018 کو شیخ رشید کے شروع کیے ہوئے نامکملمنصوبے راولپنڈی زچہ بچہ اسپتال کا دورہ کیا جس کے موقع پر شیخ رشید، چیف جسٹس کے ہمراہ تھے۔ شیخ صاحب انتہائی سنجیدگی اور پھرتیوں کے ساتھ چیف جسٹس صاحب کو اسپتال کے بارے میں بتاتے رہے اورچیف صاحب بھی انتہائی سنجیدگی سے ان کی باتوں پر رسپانس دیتے رہے۔ چیف جسٹس صاحب نے سائٹ پرہی حکم دیا کہ اسپتال کا کام جلد مکمل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے یقین دلایا کہ اسپتال کےلیے فنڈز فوری جاری کیے جائیں گے اور عدالت اس معاملے پر ہر طرح سے تعاون کرنے کو تیار ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پوری دنیا کی عدالتی تاریخ کی یہ واحد اور انوکھی مثال ہے۔
آپ چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس دورے کو سامنے رکھیے اور غور کیجیے کہ الیکشن سے ایک ماہ قبل ایک سیاسی امیدوار کے ساتھ جاکر اس کے اسپتال کا دورہ کرنا کیا چیف جسٹس صاحب کو زیب دیتا ہے؟ چیف جسٹس صاحب کے جانے سے کیا حلقے کے عوام یہ تاثر نہیں لیں گے کہ جج صاحب شیخ رشید کو سپورٹ کررہے ہیں؟ شیخ رشید کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے سے کیا چیف جسٹس صاحب نیوٹرل دکھائی دے سکتے ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ چیف جسٹس صاحب نے اسپتال کی تعمیر کا حکم دے کر بہت اچھا کیا ہے۔ اس فیصلے سے یقیناً عوام کو بہت فائدہ ہوگا اور جو لوگ اس اسپتال سے مستفید ہوں گے وہ چیف جسٹس صاحب کو ہمیشہ دعائیں دیں گے۔ لیکن اچھا کام کرنے کا بھی وقت ہوتا ہے۔ ہر اچھا کام کسی بھی وقت نہیں کیا جاسکتا۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسے نیک اور اچھے اعمال سے مستفید ہونے کےلیے انہیں مقرر کیے گے اوقات پر ادا کرنا ضروری ہے ورنہ چاہے آپ کی نیت کتنی ہی صاف کیوں نہ ہو، آپ ان نیک اعمال کا ثواب نہیں کما سکتے بلکہ غلط اوقات میں یہ اعمال ادا کرنے سے گناہ کے مرتکب بھی ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس صاحب نے بلاشبہ بہت اچھا کام کیا ہے لیکن یہ کام کرنے کےلیے غلط وقت کا انتخاب کیا ہے۔ جو کام چیف جسٹس نے الیکشن سے پچیس دن قبل کیا ہے، وہی کام الیکشن کے فوری بعد چھبیس یا ستائیس جولائی کو بھی ہوسکتا تھا۔ جہاں یہ اسپتال دس سال سے التوا کا شکار ہے وہاں پچیس دن مزید تاخیر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میں چیف جسٹس صاحب کی نیت پر شک نہیں کر رہا لیکن اگر چیف جسٹس صاحب قسمیں کھا کر بھی عوام کو یقین دلانے کی کوشش کریں کہ میرا مقصد شیخ رشید کو سپورٹ کرنا نہیں تھا تو عوام اسے سچ نہیں مانیں گے۔ کیونکہ، انجانے میں ہی سہی لیکن، چیف صاحب کے جانے سے شیخ رشید کو عوام کی سپورٹ تو حاصل ہوگئی ہے اور سیاسی حلقوں میں یہ پیغام بھی پہنچ گیا ہے کہ ملک پاکستان کی سب سے بڑی اور طاقتور عدالت کا چیف، شیخ رشید کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان سے گزارش ہے کہ کسی دن فرصت کے لمحات میں وہ خود اپنا احتساب کریں اور خود سے سوال کریں کہ جو وہ کررہے ہیں، کیا وہ پری پول رِگنگ ہے یا نہیں؟ آپ خود سے پوچھیے کہ کیا آپ کو شیخ رشید کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا چاہیے تھا؟ آپ جائزہ لیجیے کہ کیا آپ نے جانے انجانے میں شیخ رشید کی الیکشن مہم میں جان نہیں ڈالی؟ مجھے یقین ہے کہ آپ جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ آپ عدالتی پری پول رِگنگ کا حصہ بنے ہیں؛ اور جس دن آپ خود کو قصوروار ٹھہرانے میں کامیاب ہو جائیں تو اس دن خود کو سپریم کورٹ کے فل بنچ کے سامنے پیش کردیجیے اور عدالت جو سزا دے اسے قبول کیجیے۔ میرا ایمان ہے کہ جس دن آپ نے یہ کام کردیا، وہ دن پاکستان میں عدالتی پری پول رِگنگ کا آخری دن ہوگا اور پاکستانی عوام آخری سانس تک آپ کا یہ احسان نہیں بھولیں گے۔ لیکن اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو پاکستانی عوام آپ کو عدالتی پری پول رِگنگ کے موجد کے طور پر یاد رکھیں گے اور ہماری آنے والی نسلیں آپ کا نام لینا بھی پسند نہیں کریں گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اسحاق ڈار کو واپس لانے کیلئے تمام اداروں کو وزارت داخلہ کی مدد کا حکم


وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے عطاء الحق قاسمی کی بطور ایم ڈی پی ٹی وی تنخواہ کی منظوری کا ریکارڈ بھی طلب فوٹو:فائل
وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے عطاء الحق قاسمی کی بطور ایم ڈی پی ٹی وی تنخواہ کی منظوری کا ریکارڈ بھی طلب فوٹو:فائل
 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق وزیر خزانہ اور اشتہاری ملزم اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے کیلئے تمام اداروں کو وزارت داخلہ کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے عطاء الحق قاسمی کی بطور ایم ڈی پی ٹی وی تقرری کیس کی سماعت کی۔ اسحاق ڈار عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ عدالت نے وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے عطاء الحق قاسمی کی تنخواہ کی منظوری کی سمری کا ریکارڈ طلب کر لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ بتائیں اسحاق ڈار کو کیسے واپس لانا ہے، کیا عطاء الحق قاسمی کو پندرہ لاکھ ماہانہ دینے کا جواز تھا، ہو سکتا ہے یہ معاملہ نیب کو بھجوا دیں، تقرری قانونی تھی یا غیر قانونی فیصلہ کریں گے۔
سابق سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ عطاء الحق قاسمی کی تنخواہ کی سمری وزارت اطلاعات نے بھیجی، وزیر اعظم ہاؤس نے وزارت اطلاعات کی سمری کو رپورٹ کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم کے پاس تنخواہ کی سمری کو سپورٹ کرنے کا اختیار کہاں سے آیا؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مقدمہ نیب کو نہ بھیجا جائے، اگر معاملہ میں ملوث افراد ادائیگی کر دیں تو یہ بہتر حل ہے۔ وکیل عائشہ حامد نے کہا کہ عطاء الحق قاسمی سے رقم واپسی کے حوالے سے ہدایات لینے کے لیے وقت دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسروں کی ذمہ داریاں اٹھا کر تھک گئے ہیں، کرپشن سے بڑھ کر ملک کے لیے کوئی کینسر نہیں، سرکاری ہسپتالوں کی ادویات جعلی نکلتی ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ اسحاق ڈار کی واپسی کے لیے حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ نیب نے ان کے ریڈ وارنٹ کے لیے درخواست دی ہے، نیب کی درخواست پر عمل ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت داخلہ کے پاس اس طرح کے مقدمات میں واپسی کا کیا پلان ہے، اگر کوئی پاکستان کو لوٹ کر تباہ کردے تو کیا حکام ملزمان کو بیرون ملک سے نہیں لا سکتے ؟، سابق وزیر اعظم بھی لندن میں ملزم سے ملتے رہے ہیں، کیا کسی عدالتی مفرور کو وطن واپسی لانے کا کوئی میکانیزم ہے؟۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 14 جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے اسحاق ڈار کی واپسی کے لیے تمام اداروں کو وزارت داخلہ کی مدد کرنے کا حکم دیا۔

پاکستان میں پانی ایک ملین ایکڑ فٹ سے بھی کم رہ گیا، تشویشناک صورتحال

بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر ایک سال کے اندر شروع کردیں گے، چیئرمین واپڈا فوٹو:فائل
بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر ایک سال کے اندر شروع کردیں گے، چیئرمین واپڈا فوٹو:فائل
 اسلام آباد: چیئرمین واپڈا مزمل حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں پانیایک ملین ایکڑ فٹ سے بھی کم رہ گیا جس کی وجہ سے تشویشناک صورتحال ہے۔
ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کمیٹی کا پہلا اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔ چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مزمل حسین نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایک ملین ایکڑ فٹ سے بھی کم پانی رہ گیا ہے جس کی وجہ سے بہت تشویشناک صورتحال ہے، ڈیم بنانے کے لیے چیف جسٹس کا فیصلہ تاریخی اقدام ہے۔
چیئرمین واپڈا مزمل حسین نے کہا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ واپڈا نے پاکستان بننے کے بعد 18 سال میں دو بڑے ڈیم بنائے، تاہم 1976 کے بعد اس کام میں بہت سستی کا مظاہرہ ہوا، کمیٹی کے اجلاس میں دونوں منصوبوں کی تعمیر شروع ہونے میں تاخیر کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا، ہم تاخیر کے محرکات کا تدارک کریں گے، کوشش ہے کہ بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر ایک سال کے اندر شروع کردیں، دیا مر بھاشا ڈیم کیلئے پچاس فیصد فنڈز وفاق سے ملیں گے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم دیتے ہوئے فنڈ بھی قائم کردیا ہے جس میں عوام سے پیسے جمع کرانے کی اپیل کی گئی ہے۔

Pakistan Election 2018 View political party candidates, results

https://www.geo.tv/election/candidates