پاناما لیکس کے معاملے پر اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے استعفیٰ پر متفق نہ ہوسکیں

پاناما لیکس کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک آزاد کمیشن تشکیل دیا جائے،مشترکہ اپوزیشن کا مطالبہ فوٹو:آئی این پی
 اسلام آباد: اپوزیشن جماعتوں نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ٹرمزآف ریفرنس پراتفاق کرلیا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں بااختیار کمیشن بنایا جائے جو سب سے پہلے وزیراعظم اور ان کے خاندان سے تفتیش کرکے 3 ماہ میں انکوائری مکمل کرے۔


اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزازاحسن کی رہائش گاہ پرجوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس تیار کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، ایم کیوایم، قومی وطن پارٹی، مسلم لیگ (ق) اوردیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ مشترکہ اپوزیشن کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات  کرتے ہوئے  اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ مشترکہ اپوزیشن نے گزشتہ روز ہی حکومتی ٹی اوآرز مسترد کردیے تھے جب کہ آج کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ طور پر ٹی او آر تیار کرلیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو ٹی او آرزتیار کیے ہیں اس میں سب سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک آزاد کمیشن تشکیل دیا جائے جو پاناما لیکس میں شامل تمام افراد کی بین الاقوامی اداروں سے تفتیش کرے تاہم سب سے پہلے وزیراعظم اور ان کے خاندان کا احتساب کیا جائے اور بعد میں دیگر تمام افراد کا احتساب ہو۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ کمیشن کے لیے اسپیشل انکوائری اینڈ ٹرائل ایکٹ بنایا جائے جو 3 ماہ میں وزیراعظم اور ان کے خاندان کے اثاثوں کی انکوائری مکمل کرکے رپورٹ شائع کرے، جس میں ان تمام باتوں کی تفتیش کی جائے کہ بیرون ملک کس سال میں اثاثے بنائے گئے، کن ذرائع سے خریدے گئے، پیسے کیسے بھیجے گئے، کتنا ٹیکس دیا گیا اور کس فنڈ سے املاک خریدی گئی۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن پاناما لیکس میں شامل دیگرافراد کے اثاثوں کی انکوائری ایک سال میں مکمل کرے اور تفتیش مکمل ہونے کے بعد رپورٹ منظر عام   کی جائے۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے استعفے پر اپوزیشن کے درمیان اختلاف نہیں لیکن اتفاق رائے بھی نہیں، اکثریت اس مطالبے کو مانتی ہے اور ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے لیکن فی الوقت ہم استعفے کا مطالبہ نہیں کررہے تاہم اس سے اپوزیشن کا اتحاد کمزور نہیں ہوگا۔

اپوزیشن نے انكوائری كمیشن كے لیے 6 صفحات پر مشتمل مشتركہ قوائد و ضوابط تیار کیے ہیں جس كے مطابق وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ سمیت سب کے اثاثوں كی مكمل تحقیقات كی جائے گی جو 1985سے 2016ء تك تھے، اس دوران خریدے گئے اور فروخت كئے گئے اثاثے چاہے وہ خاندان میں سے كسی كے نام پر ہی كیوں نہ خریدے گئے ہوں یا فروخت ہوں كمیشن اس كی تحقیقات كرے گا۔ اس كے علاوہ كمیشن یہ بھی دیكھے گا كہ اس دوران آمدنی كے ذرائع كیا تھے اور یہ رقم كس بینك میں ركھی گئی تھی، اس طرح كی آمدنی پر كیا ٹیكس دینا ضروری نہیں جب کہ كس تاریخ كو اور كس بینك كے ذریعے ان اثاثوں كی خریداری كے لیے فنڈر كا استعمال كیا گیا، كس سے یہ پراپرٹی خریدی گئی اور یہ بھی پوچھا جائے كہ جس سے خریدی گئی اس نے اس پر كتنا ٹیكس ادا كیا، بیرونی ملك خریدے گئے اثاثوں  كے لیے ادائیگی بینك كے ذریعے كی گئی یا پھر نقد رقم دی گئی۔

ٹی او آرز کے مطابق 1985 سے اب تك سالانہ بنیاد پر ٹیکس ادائیگی کی تحقیقات کی جائیں اور اس کی تفصیلات بھی مانگی جائیں، آف شور كمپنیوں كی تفصیلات دیں، كیا وہ آف شور كمپنیاں قانون كے مطابق ہیں یا نہیں۔ ٹی آو آرز كے مطابق كمیشن یہ بھی پوچھے كہ یہ ظاہر كرنا ضروری ہے كہ بینكوں سے پیسے منتقل كرنا ، بیرون ممالك میں سے یہ ظاہر كرنا یا نہ كرنا ضروری ہے كہ نہیں ہے، وزیراعظم اور ان كے خاندان جب 2000 میں بیرون ملك گئے تو كیا وہ اس وقت ریاستی مہمان تھے یاكس حیثیت سے رہ رہے تھے اور اس وقت ریاستی مہمان كی حیثیت سے ملنے والی پراپرٹی، گفٹ یا رقم وہ پاكستان كی ریاست كو جمع كرائے گئے یا نہیں، كیا یہ جمع كرانا ضروری تھا۔ ضابطہ کار کے تحت كاغذات نامزدگی جمع كراتے ہوئے كیا یہ تمام چیزیں چھپائی گئی ہیں كیا یہ انتخابی اور ٹیكس قوانین كی خلاف ورزی نہیں ہے۔

ٹی او آرز کو خصوصی قانون پاناما پیپرز (انكوائر ی اینڈ ٹرائل ) ایكٹ 2016 نام دیا گیا ہے۔ اپوزیشن سے اتفاق رائے سے خصوصی قانون بنایا جائے جس كی سربراہی چیف جسٹس سپریم كورٹ كریں گے اور وہ خود سپریم كورٹ كے 2 ججوں كا كمیشن كے لیے انتخاب كریں گے، كمیشن كو یہ اختیار حاصل ہو گا كہ وہ ماہرین كی كمیٹی كا تقرر كر سكے جو فرانزك آڈٹ كرانے كے لیے اور آف شور كمپنیوں كے آڈٹ كے لیے اور اس كے اكاؤنٹس، اثاثوں كی منتقلی جس میں اسٹاك ، شئیرز اور بے نامی جائید اد سمیت دیگر شامل ہے كی تحقیق كر سكے۔

ٹی او آرز کے مطابق كمیٹی كی ڈیوٹی ہو گی كہ وہ منی ٹریل كی تصدیق كرے جو ایسی آف شور كمپنیوں كو فنڈر مہیا كرنے كے لیے استعمال ہوئے ہیں، كمیشن متعلقہ شخص كو ہدایت دے سكتا ہے كہ وہ پاورآف اٹارنی دے تاكہ كمیٹی بااختیار ہو سكے تاكہ وہ مكمل تفصیلات حاصل كر سكیں اور اگر كمیشن كو كسی قسم كی سہولت دركار ہوئی تو دی جائے، جب كمیشن انكوائری شروع كرے گا تو متعلقہ شخص اپنے تمام اثاثوں كی تفصیلات كمیشن كے سامنے پیش كرے گا جب کہ وزیراعظم اور ان كے خاندان سمیت سب خود كو كمیشن كے سامنے پیش كریں گے، كمیشن كو تمام عدالتی اختیارات حاصل ہوں گے جس میں پی سی، سی آر پی سی اور سپریم كورٹ كے ضوابط شامل ہیں، كمیشن میں مجرم ثابت ہونے كی صورت میں عدالتی قوانین كے مطابق سزا دے سكے گا، حكومت ہر رپورٹ شائع كرے گی اور وزیراعظم اور ان كے خاندان كی رپورٹ سب سے پہلے تیار كی جائے گی۔

قوائد و ضوابط کے مطابق كمیشن كی كارروائی عوام كے لیے كھلی ركھی جائے گی، حكومت پاكستان صوبائی حكومتیں اور سركاری ادارے جیسا كہ نیب، ایف آئی اے، آئی بی، ایس بی پی اور ایس ای سی پی كمیشن كو ہر ممكن مدد كرے گی، حكومت تمام قانونی اور مالی مدد فراہم كرے گی جس میں عالمی اداروں كے حوالے سے ڈپلومیٹ سپورٹ بھی شامل ہے، حكومت كمشین كو اپنا كام مكمل كرنے كے لیے ہر ممكن فنڈز اور سہولیات دے گی۔ ٹرمز آف ریفرنس کے تحت وزیراعظم اور ان كے خاندان كی انكوائر ی 3 ماہ میں مكمل ہوگی جس میں ایك ماہ تك توسیع ہو سكے گی باقی كے لیے ایك سال میں انكوائری مكمل كرنا ضروری ہے۔

فوج میں کرپشن پر صفائی ہورہی ہے اور سزائیں بھی دی جارہی ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

فوج میں احتساب کا باقاعدہ نظام موجود ہے جسے مزید مستحکم کیا جارہا ہے، لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ، فوٹو؛ فائل
راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کا کہنا ہے کہ فوج میں کرپشن پر صفائی ہورہی ہے اور سزائیں بھی دی جارہی ہیں جب کہ احتسابی عمل کو پاک فوج میں بھی سراہا جارہا ہے۔
ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ فوج میں احتساب کا باقاعدہ نظام موجود ہے جسے مزید مستحکم کیا جارہا ہے جب کہ کرپشن پر فوج میں صفائی ہورہی ہے اور سزائیں بھی دی جارہی ہے، 6 افسران کو ایک ہی کیس میں سزا دی گئی اور احتساب کے اس عمل کو پاک فوج میں بھی سراہا جارہا ہے۔ انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ سابق کور کمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل نوید زمان اور سابق کورکمانڈر کراچی سجاد غنی کے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہورہی ہے۔
عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ اس وقت 11 فوجی عدالتیں کام کررہی ہے جن میں 207 کیسز زیر سماعت ہیں، 88 دہشت گردوں کو سزائی ہوچکی ہیں جب کہ جنوری 2017 تک تمام کیسز مکمل کرلیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی فیصلہ عجلت میں نہیں ہورہا، ملک بھر میں نوگو ایریاز کی نشاندہی کرلی گئی ہے، کومبنگ آپریشن ملک بھر میں کیے جائیں گے جو آپریشن ضرب عضب کا حصہ ہے اور ضرب عضب کی مثال سب کے سامنے ہے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ فاٹا کو دہشت گردوں سے کلیئر کردیا گیا ہے اورآئی ڈی پیز کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوچکا۔ انہوں نے کہا کہ  انٹیلی جنس بنیاد پر 18 ہزار آپریشن کیے گئے ہیں، شہری الرٹ رہیں اور مشکوک افراد پر نظر رکھیں۔ چھوٹو گینگ سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ گینگ سے تفتیش جاری ہے جس میں نئی چیزیں سامنے آرہی ہیں۔

نصف صدی بعد امریکی بحری جہاز کیوبا کے سفر پر

گذشتہ پچاس برس سے بھی زیادہ عرصے کے بعد پہلی بار ایک امریکی بحری جہاز کیوبا کے لیے سفر پر ہے جو پیر کے روز دارالحکومت ہوانا پہنچے گا۔
اڈونیہ نامی اس بحری جہاز میں تقریبا 700 افراد سوار ہیں جومیامی کی بندر گاہ سے روانہ ہوا تھا۔
امریکہ اور کیوبا نے گذشتہ برس ہی اپنے سفارتی تعلقات پھر سے بحال کیے ہیں لیکن دونوں کے درمیان سرد جنگ کے زمانے میں تجارت اور سفر سے متعلق جو پابندیاں عائد کی گئی تھیں انہیں ابھی بھی پوری طرح نہیں اٹھایا گیا ہے۔
کیوبا نے اپنے شہریوں کے لیے امریکہ کے لیے سفر پر سمندر کے راستے سے داخلے یا باہر جانے پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور اس پابندی کو ہٹانے کے بعد ہی یہ بحری جہاز کیوبا کے لیے روانہ ہو پایا۔
Image copyright EPA
Image caption کارنیوال نامی امریکی کمپنی جو اس بحری جہاز کو چلاتی ہے اسے دونوں ممالک کی حکومتوں نے فلوریڈا اور کیوبا کے درمیان بحری جہاز چلانے کی اجازت دی تھی
کارنیوال نامی امریکی کمپنی جو اس بحری جہاز کو چلاتی ہے اسے دونوں ممالک کی حکومتوں نے فلوریڈا اور کیوبا کے درمیان بحری جہاز چلانے کی اجازت دی تھی۔
لیکن چونکہ کیوبا کی جانب سے اپنے شہریوں پر یہ پابندی نافذ تھی کہ وہ صرف ہوائی جہاز سے ہی امریکہ کا سفر کر سکتے ہیں اس لیے کمپنی ٹکٹ بک نہیں کر پا رہی تھی۔
لیکن حکومتوں کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد کیوبا نژاد امریکی شہریوں نے احتجاج کیا۔ اس کے مد نظر ہی کیوبا کی حکومت نے ایک ہفتے قبل پابندی ختم کی تھی۔
سنہ 1959 میں کیوبا کے انقلاب، جب فیدل کاسترو نے اقتدار سنبھالا، سے قبل آبنائے فلوریڈا کو بحری جہاز یا کشتیوں سے عبور کرنا ایک عام سی بات تھی۔ لیکن اسی کے بعد دونوں جانب سے پابندیاں نافذ ہونی شروع ہوگئی تھیں۔
Image copyright AP
Image caption کارنیوال کا کہنا ہے کہ اس کا جہاز اڈونیہ میامی اور کیوبا کے درمیان فی الوقت ہر دوسرے ہفتے ایک چکر لگائے گا
2014 کے اواخر میں امریکی صدر باراک اوباما اور کیوبا کے صدر راؤل کاسترو نے تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا تھا اور تب سے کیوبا میں سیاحوں کی تعداد میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار ول گرانٹ کا کہنا ہے کہ بحری سفر کی اجازت کے بعد کیوبا میں سیاحوں کی تعداد میں آئندہ چند ماہ میں زبردست اصافہ ہونے کا امکان ہے۔
کارنیوال کا کہنا ہے کہ اس کا جہاز اڈونیہ میامی اور کیوبا کے درمیان فی الوقت ہر دوسرے ہفتے ایک چکر لگائے گا۔

دنیا کے نامور کوہ پیما کی لاش 16 سال بعد ہمالیہ کی پہاڑیوں سے مل گئی

الیکس لووی اپنے ساتھی کے ہمراہ 5 اکتوبر 1999 کو ہمالیہ کی پہاڑی سر کرتے ہوئے طوفانی تودے کی زد میں آگئے تھے۔ فوٹو: فائل
نیویارک: دنیا کے سب سے بہترین کوہ پیما الیکس لووی اور ان کے کیمرہ مین کی تودے تلے دبی لاشیں 16 سال بعد ہمالیہ کی پہاڑیوں سے مل گئیں۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق دنیا کے مشہور امریکی کوہ پیما الیکس لووی اکتوبر 1999 میں اپنے ساتھی کیمرہ مین کے ہمراہ 26 ہزار 290 فٹ بلند ہمالیہ کی پہاڑی سر کرنے گئے تھے جہاں طوفانی تودہ گرنے سے وہ وہیں پھنس گئے جن کی لاشیں گزشتہ ہفتے تلاش کرلی گئیں جب کہ دونوں افراد کی لاشیں برف میں پھنسی ہوئی تھیں۔
40 سالہ امریکی کوہ پیما الیکس لووی کو دنیا کا سب سے بہترین کوہ پیما سمجھا جاتا ہے جنہوں نے 2 مرتبہ ماؤنٹ ایوریسٹ، مونٹی سروینو اور ایل کیپیٹین جیسی دشوار گزار پہاڑیوں کو 16 مرتبہ سر کیا جب کہ 5 اکتوبر 1999 کو ہمالیہ کی پہاڑی سر کرتے ہوئے وہ اپنے قریبی ساتھی اور کیمرہ مین ڈیوڈ بریج کے ساتھ بڑے برفانی تودے تلے دب گئے تھ

16 سال بعد دو امریکی کوہ پیماؤں کی لاشیں برآمد

ہمالیہ کے ایک گلیشیئر میں 16 سال بعد دو امریکی کوہ پیماؤں کی لاشیں ملی ہیں جو برف کے ایک بڑے تودے کے نیچے دب کر ہلاک ہو گئے تھے۔
دنیا کے معروف کوہ پیما ایلکس لو سنہ 1999 میں کیمرا مین ڈیوڈ برِجز کے ساتھ تبت کی 8013 میٹر اونچی چوٹی شیشہ پنگما کو سر کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کے اوپر تودہ آ گرا۔ پچھلے ہفتے دو کوہ پیماؤں کو ان کی برف میں دبی ہوئی لاشیں ملیں۔
لو کی بیوہ جینیفر لو اینکر کا کہنا تھا کہ وہ ’وقت میں منجمد‘ ہو گئے ہیں۔
40 سالہ لو کا شمار اپنے زمانے کے عظیم کوہ پیماؤں میں ہوتا تھا۔ وہ دوسرے کوہ پیماؤں کی جانیں بچانے کے لیے بھی مشہور تھے۔
Image copyright
Image caption لو کی بیوہ جینیفر لو اینکر کا کہنا تھا کہ وہ ’وقت میں منجمد‘ ہو گئے ہیں
لو اور 29 سالہ برجز دوست بھی تھے اور کوہ پیمائی کے ساتھی بھی۔ وہ دنیا کی 14ویں سب سے اونچی چوٹی شیشہ پنگما کی چوٹی تک پہنچنے کا راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے تھے۔
لو کی بیوہ جینیفر اینکر نے جمعے کو ان کی لاشوں کی دریافت کا اعلان کیا جو اب اپنے موجودہ خاوند کونریڈ اینکر کے ساتھ اپنے پچھلے خاوند کی یاد میں ایک فلاحی تنظیم چلا رہی ہیں۔
اینکر بھی شیشہ پنگما میں اسی دن موجود تھے اور وہ بھی برف کے تودے کی زد میں آئے تھے تاہم وہ معمولی زخمی ہوئے۔
انھوں نے کئی دنوں تک دوسرے کوہ پیماؤں کے ساتھ مل کر لاشیں ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ 2001 میں انھوں نے ایلکس کی بیوہ سے شادی کر لی اور ان کے دونوں بچوں کی کفالت اپنے ذمے لے لی۔
جوڑے کو لاشوں کی خبر کوہ پیما ڈیوڈ گوٹلر اور یویلی سٹیک سے اس وقت ملی جب وہ نیپال میں اپنی فلاحی تنظیم کے کام کے سلسلے میں مصروف تھے۔ لو اینکر نے بتایا کہ انھیں بتایا گیا کہ دونوں لاشیں ’اب بھی نیلی برف کے اندر موجود ہیں جو اب گلیشیئر سے آہستہ آہستہ باہر آ رہی ہیں۔‘
فلاحی تنظیم کے ایک بیان کے مطابق اینکر کا کہنا تھا کہ جب انھیں لاشوں کے کپڑوں اور ساز و سامان کی تفصیل بتائی گئی تو انھیں یقین ہو گیا کہ وہ لو اور برجز کی ہی تھیں۔

Pakistan Election 2018 View political party candidates, results

https://www.geo.tv/election/candidates