100 لڑکیوں کو ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دینے کیلیے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی ہیں فوٹو : فائل
نئی دہلی: بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کی مسلمان دشمنی پاگل پن میں بدلنے لگی، انتہا پسند ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد خواتین کومسلح تربیت دے رہی ہے تا کہ مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں انھیں بھی استعمال کیا جا سکے۔
بھارتی وزیراعظم کے پارلیمانی انتخابی حلقے وارانسی، بنارس میں ہندو تنظیم خواتین کو مسلح تربیت دے رہی ہے جس میں مسلمانوں کوبطوردشمن پیش کیا جا رہا ہے۔ تربیتی کیمپ میں 11 اضلاع کی 100 سے زائد لڑکیوں کو جسمانی لڑائی، بندوق اور لاٹھی چلانے سمیت دیگرہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دی جا رہی ہے۔
لڑکیوں کوتربیت دینے کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ انتہاپسندہندوؤں کی جانب سے عام مردوخواتین کو مسلح تربیت نے پہلے سے مظالم کا شکار بھارتی مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔
سوئس حکام کا کہنا ہے کہ ایلپس کے پہاڑی سلسلے سے گزرنے والی اس سرنگ سے یورپ میں مال برداری کے میدان میں انقلاب آ جائے گا۔
یورپ میں ایلپس کا پہاڑی سلسلہ ہمیشہ سے تجارت کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا رہا ہے۔ رومی زمانے سے لے آج تک اس کے آر پار جانے والے راستے بنائے جاتے رہے ہیں اور ان پر لڑائیاں ہوتی چلی آئی ہیں۔
قدیم زمانے میں اس سلسلۂ کوہ کے دروں میں خچروں کے کاروان گزرا کرتے تھے جن پر نمک سے لے شراب، اور دھاتوں سے لے کر چمڑے کی مصنوعات لدی ہوتی تھیں۔ حادثات عام تھے اور سردیوں میں راستے بند ہو جایا کرتے تھے۔
Image copyrightAFP
1882 میں جب یہاں پہلی ریلوے لائن بچھائی گئی تو اس وقت کے سوئس صدر سمیون باویئر نے بڑی گرم جوشی سے کہا تھا: ’یہ سائنس اور آرٹ کی فتح ہے، یہ محنت اور جانفشانی کی جیت ہے۔ قوموں کو تقسیم کرنے والی رکاوٹ گرا دی گئی ہے اور ایلپس میں نقب لگا دی گئی ہے۔ اب ملک قریب آ گئے ہیں اور دنیا کی منڈی سب کے لیے کھل گئی ہے۔‘
آج بھی اطالوی زیتون کا تیل ہالینڈ بھیجنا ہو یا جرمن کاریں یونان، انھیں ایلپس سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ یہی حال چین اور انڈیا سے آنے والا ہزاروں ٹن مال کا بھی ہوتا ہے۔
لیکن ایلپس سے گزرنے والا موجودہ ٹرانسپورٹ کا نظام طلب پوری کرنے سے قاصر ہے۔ پرانی ریلیں سست رفتار ہیں اور سڑک کے راستے پر واقع گوٹہارڈ سرنگ سے ہر سال دس لاکھ ٹرک گزرتے ہیں، جن کی وجہ سے ایلپس میں بسنے والی آبادیوں کو شور اور ہوا کی آلودگی کی شکایت ہے۔
ٹرک ڈرائیوروں کو سنگل لین سرنگ ناپسند ہے۔ 2011 میں سرنگ کے بیچوں بیچ دو لاریاں ٹکرا گئیں جن سے آگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور 11 لوگ مارے گئے۔
1992 میں سوئس لوگوں نے ووٹنگ کے ذریعے ایلپس کے آر پار ایک ہائی سپیڈ ریل کے منصوبے کی تعمیر کی منظوری دی تھی۔لیکن اس منصوبے کی راہ میں کئی چیلنج حائل تھے۔
ماہرینِ ارضیات نے کہا کہ گوٹہارڈ کی چٹانیں ناقابلِ اعتبار ہیں اس لیے یہاں سے سیدھی سرنگ گزارنا ممکن نہیں ہو گا۔ مالی مسائل اس کے علاوہ تھے۔
جب کام شروع ہوا تو پتہ چلا کہ بعض چٹانیں ’مکھن کی طرح نرم‘ ہیں، جس کی وجہ سے دن بھر میں مشکل سے ایک میٹر کھدائی ہوتی تھی۔
کھدائی کے لیے 30 فٹ قطر والی دیو ہیکل مشین استعمال کی گئی جو سازگار دنوں میں 40 میٹر تک کھدائی کر سکتی تھی۔
گوٹہارڈ دنیا کی سب سے گہری سرنگ ہے۔ اس کے اوپر ڈھائی کلومیٹر اونچے پہاڑ کا بوجھ ہے، اس لیے کششِ ثقل بار بار حائل ہو کر کھودی ہوئی سرنگ کو بند کرتی رہی۔ اس سے نمٹنے کے لیے سرنگ کی چھتوں میں مضبوط سٹیل کے شہتیر ڈالے گئے۔
اس سرنگ پر دو ہزار سے زائد لوگوں نے 17 سال تک 365 دن سالانہ، 24 گھنٹے یومیہ کام کیا ہے۔ اس دوران حادثات میں نو مزدور مارے گئے۔
بالآخر سرنگ تیار ہو گئی ہے اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند، اٹلی کے وزیرِ اعظم میتیو رینزی سمیت یورپ کے رہنما اسے دیکھنے آ رہے ہیں۔
اس دہری سرنگ کے ذریعے مال کی تیزرفتار اور محفوظ ترسیل ممکن ہو سکے گی۔ تصادم کے خطرے سے بےنیاز ٹرینیں یہاں سے ڈھائی سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گزرا کریں گی۔
مزید یہ کہ پٹری کے راستے میں کوئی چڑھائی اترائی نہیں ہے اور زیورخ سے لے کر لوگانو تک راستہ بالکل ہموار اور سیدھا ہے۔
سوئس اس منصوبے پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں۔ وزیرِ ٹرانسپورٹ ڈورس لیوٹہارڈ اسے نہ صرف اپنے ملک بلکہ تمام یورپ کے لیے خوش آئند قرار دیتی ہیں۔
’ہمارا چھوٹا سا خشکی میں گھرا ہوا ملک ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ تعاون ہی بنیادی شرط ہے۔ یہ منصوبہ اسی تعاون کی مثال ہے۔‘
وہ کہتی ہیں: ’میرا خیال ہے کہ اس بات کی علامت ہے کہ یورپ اور سوئس انجینیئر کیا کر سکتے ہیں، اور انھوں نے زبردست کام کر دکھایا ہے۔‘
PESHAWAR: A lawyer on Tuesday filed a petition with the Peshawar High Court seeking the prime minister’s disqualification over the failure to declare his family’s nine offshore companies in the nomination papers for general elections.
In the petition, Mohammad Ayaz Majid, a former additional advocate general, requested the court to declare that Nawaz Sharif had violated Articles 62 and 63 of the Constitution by not disclosing offshore companies of family members and therefore, he was not qualified to hold the prime minister’s office.
He requested the court to declare that it was obligatory for the National Accountability Bureau and Federal Investigation Agency to take action on different news items related to the said offshore companies and that keeping mum on any such offence amounted to professional misconduct and an offence.
The respondents in the petition are Prime Minister Nawaz Sharif, President Mamnoon Hussain, Election Commission of Pakistan, cabinet, interior and foreign secretaries, federal customs collector, Federal Investigation Agency director general, and National Accountability Bureau and Federal Board of Revenue chairmen.
The petitioner said recently, the national and international media reported that around 220 Pakistanis, including the family of the prime minister, had offshore companies abroad.
He said nine offshore companies were registered in the name of the prime minister’s family members, including sons Hussain Nawaz and Hassan Nawaz, and daughter Maryam Nawaz.
The petitioner alleged that since the country’s creation, different people had been looting exchequer and therefore, it was time for the courts to interfere to check it.
He said no Pakistani was allowed to shift foreign currency exceeding certain limits abroad without following certain procedure and the violation of that procedure was an offence.
The petitioner said the prime minister failed to suggest the trail of the shifting of such a huge amount abroad.
He alleged that the matter pertained to the export of currency, tax evasion and money laundering, which were offences under different laws.
The petitioner claimed the formation of a judicial commission to probe the matter and find out the truth in the presence of the prime minister and president was not possible and that it was also against the principle of natural justice, so the removal of the two was imperative for independent inquiry.
انجینئر ایسکلیٹر کی مرمت کررہا تھا کہ اچانک کچھ حصہ گرجانے سے وہ اسکلیٹر میں پھنس گیا۔ فوٹو سی ای این
چونگ چنگ: چین کے شہر چونگ چنگ کے شاپنگ سینٹر میں ایسکلیٹر کی مرمت کرتے ہوئے انجینئر خود اس میں پھنس کر شدید زخمی ہوگیا۔
شاپنگ سینٹر میں چلتی ہوئی سیڑھیاں خریداروں کی آسانی کے لیے بنائی جاتی ہیں تاکہ انہیں زحمت نہ ہو اور وہ باآسانی پوری عمارت میں اوپر نیچے جا سکیں۔ لیکن اگر چلتے ہوئے راستے میں کسی خرابی کے باعث یہ ٹوٹ جائے اور انسان اس کے اندر گر جائے تو یہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
ایسا ہی کچھ ہوا ایک چینی انجینئر کے ساتھ جو ان چلتی ہوئی سیڑھیوں یعنی ایسکلیٹر کی مرمت کر رہا تھا کہ اچانک اس کا کچھ حصہ نیچے گر گیا اور انجینئر ایسکلیٹر کے اندر پھنس گیا۔ ایسکلیٹر کو بروقت بند کر دینے سے انجینئر کی جان ضرور بچ گئی لیکن یہ حادثہ اسے شدید زخمی کر گیا۔ امدادی کارکنوں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے انجینئر کو ایسکلیٹر سے زندہ نکال کر اسپتال پہنچایا۔ اس حادثے نے شاپنگ مال میں موجود افراد کے رونگھٹے کھڑے کر دیے۔
MINGORA: Police arrested a man in Manrrai area of Matta tehsil here on Tuesday for his alleged involvement in terrorist acts.
According to Matta police, Behramand, a resident of Manrrai, was wanted by law enforcement agencies for his anti-state activities during the Swat insurgency from 2007 to 2009.
He was arrested by counter-terrorism department of police on a tipoff in Manrrai village. He was shifted to an unspecified location for further investigation.
Matta tehsil was a stronghold of Swat Taliban where they had established their own courts, police stations and punishment cells.
Meanwhile, security forces demolished a house of a wanted militant at Dherai village in Kabal tehsil. According to local sources, security forces demolished the house of Suleman, who was allegedly involved in facilitating target killers and militants. After security forces eliminated militancy from Swat valley by conducting a successful military operation in 2009, they demolished hundreds of houses of the absconded militants.
Image copyrightAPImage captionامدادی کارکنوں نےفلوجہ میں پھنسےعام شہریوں کی حفاظت کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے( فائل فوٹو)
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم فلوجہ میں عراقی افواج کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے ممکنہ طور پر عام شہریوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اسے بعض ایسی مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو پکڑ کر شہر کے مرکز میں لے جایا گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کہ مطابق اس لڑائی کی وجہ سے پھنسے 50 ہزار عام شہریوں کی حالت بہت خراب ہے اور ان تک کسی قسم کی امداد نہیں پہنچائی جا سکتی ہے۔
اس سے قبل دولت اسلامیہ کےجنگجوؤں نےمنگل کی الصبح فلوجہ میں عراقی افواج پر تازہ حملہ کیا جو شہر کو دولت اسلامیہ کے قبضے سے آزاد کرانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
عراقی افواج نےدعویٰ کیا تھا کہ حکومتی افواج نے فلوجہ کے علاقے نوایمایا میں پیش قدمی کی ہے۔
فلوجہ آپریشن کے کمانڈر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ منگل کی الصبح ہونے والے دولت اسلامیہ کا حملہ تو پسپا کر دیاگیا ہے لیکن اس میں دونوں جانب سے جانی نقصان ہوا ہے۔
امدادی کارکنوں نے فلوجہ میں پھنسے ہوئے پچاس ہزار عام شہریوں کی حفاظت کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
Image copyrightImage captionامدادی کارکنوں نےفلوجہ میں پھنسے ہوئے پچاس ہزار عام شہریوں کی حفاظت کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے
ایسی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ فلوجہ میں پھنسے ہوئے لوگ فاقہ کشی سے مر رہے ہیں اور آئی ایس کے ہمراہ لڑنے سے انکار کرنے پر لوگوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔
عراقی فوج نے فلوجہ میں پھنسے ہوئےافراد سے کہا ہے کہ یا تو وہ شہر چھوڑ دیں اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو گھروں کے اندر رہیں۔
خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے سنہ 2014 میں اس شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ شمالی عراق میں موصل اور فلوجہ دو بڑے شہر ہیں جو دولت اسلامیہ کے قبضے میں ہیں۔
فلوجہ کو آزاد کرانے کے لیے جاری آپریشن کے کمانڈر لیفٹینٹ جنرل عبدل وہاب السعدی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ دولت اسلامیہ کے سو کے قریب جنگجوؤں نے افواج پر حملہ کیا ہے اور ان میں سے 75 جنگجو جوابی کارروائی میں مارے گئے ہیں۔
فلوجہ کی لڑائی
عراقی افواج نے فلوجہ کو دولت اسلامیہ کے قبضے سے چھڑانے کے لیے ایک آپریشن شروع کیا ہے
2014
فلوجہ پر دولت اسلامیہ کے قبضے سے پہلے اس کی آبادی تین لاکھ سے زیادہ تھی
2004
امریکہ کی عرا ق پر یلغار کے بعد فلوجہ سنی بغاوت کی علامت بن کر ابھرا۔ فلوجہ بغداد سے اردن اور شام کو ملانےوالی شاہراہ کو کنٹرول کرتا ہے
200 فلوجہ کو مساجد کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ فلوجہ میں 200 سے زیادہ مساجد ہیں
انھوں نے کہا :’بھاری اسلحے سے لیس حملہ آوروں نے زبردست حملہ کیا لیکن انھوں نے کار بموں اور خود کش حملہ آوروں کو استعمال نہیں کیا۔‘
ایک اندازے کے مطابق اس شہر میں 50 ہزار کے قریب شہری پھنسے ہوئے ہیں جبکہ چند سو خاندان ہی بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔
سرکاری بیان کے مطابق عراقی فوج اور انسداد دہشت گردی یونٹ کے دستے مختلف جانب سے شہر کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
Image copyrightAPImage captionامدادی کارکنوں نےفلوجہ میں پھنسےعام شہریوں کی حفاظت کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے( فائل فوٹو)
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم فلوجہ میں عراقی افواج کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے ممکنہ طور پر عام شہریوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اسے بعض ایسی مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو پکڑ کر شہر کے مرکز میں لے جایا گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کہ مطابق اس لڑائی کی وجہ سے پھنسے 50 ہزار عام شہریوں کی حالت بہت خراب ہے اور ان تک کسی قسم کی امداد نہیں پہنچائی جا سکتی ہے۔
اس سے قبل دولت اسلامیہ کےجنگجوؤں نےمنگل کی الصبح فلوجہ میں عراقی افواج پر تازہ حملہ کیا جو شہر کو دولت اسلامیہ کے قبضے سے آزاد کرانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
عراقی افواج نےدعویٰ کیا تھا کہ حکومتی افواج نے فلوجہ کے علاقے نوایمایا میں پیش قدمی کی ہے۔
فلوجہ آپریشن کے کمانڈر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ منگل کی الصبح ہونے والے دولت اسلامیہ کا حملہ تو پسپا کر دیاگیا ہے لیکن اس میں دونوں جانب سے جانی نقصان ہوا ہے۔
امدادی کارکنوں نے فلوجہ میں پھنسے ہوئے پچاس ہزار عام شہریوں کی حفاظت کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
Image copyrightImage captionامدادی کارکنوں نےفلوجہ میں پھنسے ہوئے پچاس ہزار عام شہریوں کی حفاظت کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے
ایسی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ فلوجہ میں پھنسے ہوئے لوگ فاقہ کشی سے مر رہے ہیں اور آئی ایس کے ہمراہ لڑنے سے انکار کرنے پر لوگوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔
عراقی فوج نے فلوجہ میں پھنسے ہوئےافراد سے کہا ہے کہ یا تو وہ شہر چھوڑ دیں اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو گھروں کے اندر رہیں۔
خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے سنہ 2014 میں اس شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ شمالی عراق میں موصل اور فلوجہ دو بڑے شہر ہیں جو دولت اسلامیہ کے قبضے میں ہیں۔
فلوجہ کو آزاد کرانے کے لیے جاری آپریشن کے کمانڈر لیفٹینٹ جنرل عبدل وہاب السعدی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ دولت اسلامیہ کے سو کے قریب جنگجوؤں نے افواج پر حملہ کیا ہے اور ان میں سے 75 جنگجو جوابی کارروائی میں مارے گئے ہیں۔
فلوجہ کی لڑائی
عراقی افواج نے فلوجہ کو دولت اسلامیہ کے قبضے سے چھڑانے کے لیے ایک آپریشن شروع کیا ہے
2014
فلوجہ پر دولت اسلامیہ کے قبضے سے پہلے اس کی آبادی تین لاکھ سے زیادہ تھی
2004
امریکہ کی عرا ق پر یلغار کے بعد فلوجہ سنی بغاوت کی علامت بن کر ابھرا۔ فلوجہ بغداد سے اردن اور شام کو ملانےوالی شاہراہ کو کنٹرول کرتا ہے
200 فلوجہ کو مساجد کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ فلوجہ میں 200 سے زیادہ مساجد ہیں
انھوں نے کہا :’بھاری اسلحے سے لیس حملہ آوروں نے زبردست حملہ کیا لیکن انھوں نے کار بموں اور خود کش حملہ آوروں کو استعمال نہیں کیا۔‘
ایک اندازے کے مطابق اس شہر میں 50 ہزار کے قریب شہری پھنسے ہوئے ہیں جبکہ چند سو خاندان ہی بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔
سرکاری بیان کے مطابق عراقی فوج اور انسداد دہشت گردی یونٹ کے دستے مختلف جانب سے شہر کی جانب بڑھ رہے ہیں۔