پاکستان اسٹار نامی گھوڑے کا ایسا کارنامہ جس کی ویڈیو دنیا بھر میں وائرل ہوگئی

ویڈیو میں پاکستانی اسٹار گھوڑے کو گھردوڑ میں آخری قطار سے اچانک اول نمبر آتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ۔ فوٹو: بشکریہ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ
ہانگ کانگ: کیا آپ نے یہ نئی ویڈیو دیکھی ہے جس میں گھڑدوڑ کے ایک مقابلےمیں پاکستان اسٹار نامی گھوڑا سب سے آخری نمبر پر نظر آرہا ہے لیکن وننگ لائن کے قریب آتے ہی گھوڑا اپنی پوری قوت کا مظاہرہ کرتے  ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے  سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مقابلے کا فاتح بن جاتا ہے۔  
ہانگ کانگ میں منعقدہ گِرفِن ریس میں پاک ستارہ نامی گھوڑا میتھیو چیڈوک دوڑارہے تھے جو ابتدا سے ہی آہستہ دوڑتا  اوراس کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ لیکن ریس کے آخری لمحات میں ایسا لگا کہ پاکستان اسٹارکوگویا پر لگ گئے ہوں اور وہ ایک دم تمام گھوڑوں کے ساتھ آکر ان سے آگے نکل کر فاتح قرار پاتا ہے اور  اسے دیکھ کر تماشائی اور کمنٹیٹر بھی حیران رہ جاتے ہیں۔
ساؤتھ چائنا اخبار نے پاکستان اسٹار کی فتح پر لکھا  کہ اس ( گھوڑے) میں ذہن کی بجائے جسمانی صلاحیت ذیادہ تھی۔ گھڑ سوار میتھیو چیڈوک نے کہا کہ اس قسم کی دوڑوں میں عام طور پر نا تجربہ کار اور شوقیہ گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں، گھوڑا دماغی طور پر  ریس میں اتنا موجود نہ تھا لیکن وہ ہر لمحہ اپنی قوت بڑھا کر رفتار تیز کرتا رہا۔
یہ گھوڑا جرمن نسل سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی عمر 3 سال ہے، اسے کرم دین نامی شخص نے 60 لاکھ ہانگ کانگ ڈالر میں خریدا ہے، اس دوڑ میں وہ گھوڑے دوڑتے ہیں جنہوں نے پہلے کبھی کوئی ریس نہیں جیتی ہوتی  اور پاکستان اسٹار نے بھی اپنی دوڑ پہلی مرتبہ جیتی ہے۔ کرم دین کا تعلق پاکستان سے ہے جو بزنس مین ہیں اور گھڑدوڑ میں بھی حصہ لیتے ہیں۔

فلم ’’کبھی خوشی کبھی غم‘‘ میں شاہ رخ کے بیٹے کا کردار ادا کرنیوالے کرش کو پہچاننا ناممکن


عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام کی پہلی فلم ’’جانان‘‘ کا ٹریلر جاری

رومانوی فلم’’جانان‘‘میں علی رحمان خان،ارمینہ رانا خان ، بلال اشرف اور مشی خان نے مرکزی کردار ادا کیا ہے، فوٹو:تشہیری پوسٹر
کراچی: پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان کی پروڈکشن میں بننے والی پہلی فلم’’جانان‘‘ کا ٹریلر ریلیزکردیا گیا جسے شائقین کی جانب سے بے حد پذیرائی مل رہی ہے۔
ریحام خان کی پروڈکشن میں بننے والی پہلی  رومانوی فلم’’جانان‘‘میں علی رحمان خان،ارمینہ رانا خان ، بلال اشرف اور مشی خان نے مرکزی کردار ادا کیا ہے جب کہ ہدایت کاری کے فرائض اظفر جعفری نے سرانجام دیئے ہیں ۔ فلم کی کہانی پختون لڑکی کے گرد گھومتی ہے جوبرطانیہ سے اعلی تعلیم حاصل کر نے کے بعد وطن لوٹتی ہیں  اورپھر دو بھائی اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں جب کہ فلم  کا ٹریلرریلیز ہونے کے بعد شائقین کی جانب سے بے حد پسند کیا جارہا ہے جسے اب تک لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں۔
دوسری جانب ریحام خان نے بھی شائقین کی جانب سے فلم کے ٹریلر کوپذیرائی ملنے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹرپر کہنا تھا کہ  امید ہے کہ  ملک میں نئے ٹیلنٹ کے لیے مواقع فراہم کیے جائیں گے جس کے لیے فلم ’’جانان‘‘ آغاز ہے۔
Thank you.Hopefully we can continue grooming young talent & give them opportunities to make films.Janaan is a start https://twitter.com/ghostprotocol27/status/748901198086934528 

واضح رہے کہ فلم ’’جانان‘‘رواں سال عید الاضحی کے موقع پر نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔

اچھے کپڑوں کی انوکھی شرط

اچھے کپڑوں اور جوتوں کے ضابطے نے واضح کر دیا کہ ان ٹرانسمیشن کا مقصد عوام کو تفریح فراہم کرنا نہیں بلکہ پرکشش اور دلفریب ماحول بنا کر ریٹنگ اور اشتہارات کا حصول ہے۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب رمضان کے مبارک مہینے میں عبادت کے علاوہ سوغات کے طور پر کھجلہ پھینی، پراٹھے، پکوڑے، افطاری اور سحری کے دیگر لوازمات، کرکٹ میچز اور پتنگ بازی کو ہی جانا جاتا تھا، لیکن پھر میڈیا کے ارتقائی سفر کے ساتھ کمرشلزم اور گلیمر کے تڑکوں نے رمضان ٹرانسمیشن، سحری کا منظر، افطار کا سماء جیسے رحجانات متعارف کرائے، جو کہ بدقسمتی سے مقبولیت کا ریکارڈ توڑتے آج اس نہج پر ہیں کہ رات 2 بجے ہوں یا سہہ پہر کا وقت، ہر گھر میں جیتو، لوٹ مار، اور بے تکے سوالوں کے جوابات اور تُکوں کی صدا آرہی ہوتی ہے۔ مذہبی ادائیگی سے فن گائیکی تک تمام جلوے ایک ہی جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس تمام عوامل نے صورت حال اس نہج تک پہنچا دی ہے کہ لوگ اب اس تگ و دو میں رہتے ہیں کہ کسی صورت ان پروگرامز میں جانے کا پروانہ مل جائے یعنی داخلہ پاس۔ ای میلز، واٹس اپ میسجز، فون کالز اور رجسٹریشن کیلئے پہلے سر توڑ کوشیشیں کی جاتی ہیں، اور ان سب سے بھی جب کام نہ بنے تو پاکستانی اپنا آخری حربہ آزماتے ہوئے جگاڑ یعنی مطلوبہ چینل میں تعلقات کھنگالتے ہیں کہ کوئی تو صورت بر آئے۔
پھر جب اس تمام تر جدوجہد کے بعد کوئی فرد پاس کے حصول میں کامیاب ہوجاتا ہے تو باقاعدہ خاندان میں اطلاع دی جاتی ہے، ٹیکسٹ میسجیج فارورڈ ہوتے ہیں کہ کامیابی مقدر ٹھہری اور شان و شوکت کے ساتھ ہم بھی اس رمضان ٹرانسمیشن کا حصہ بنیں گے۔ ایسے ہی ایک اتفاق کا ہمیں بھی سامنا کرنا پڑا۔ جب ایک روز افطار کیلئے ہم خاندان میں ایک جگہ مدعو تھے۔ بعد افطار اہل خانہ کی ایک کم عمر بچی نے نہایت پر مسرت انداز میں بتایا کہ وہ بھی کل ایسے ہی ایک پروگرام میں شرکت کرنے والے ہیں اور میں بھی انکل سے پنک والی سائیکل مانگ کر لاؤں گیں۔ یہ بات سن کر ہمیں حیرت تو نہیں البتہ ناگواری ضرور محسوس ہوئی، کیونکہ معصوم بچے جو دیکھتے، سنتے ہیں وہ ہی جذب کرلیتے ہیں۔
جب بچہ یہ دیکھے گا کہ اسی کے ہم عمر نے اسی طرح مانگ کر اپنی من پسند شے حاصل کی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ باجی نے سونے کی انگوٹھی، بھائی نے لیپ ٹاپ، ابو نے بائیک اور امی نے لان کا سوٹ مانگ لیا تو ایک اس کے مانگ کر کچھ لینے میں کیسی قباحت؟ خیر میں نے بات کا رخ بدلتے ہوئے بچی سے پوچھا کہ چھوڑو آپ کے پاس تو پہلے ہی اتنی اچھی سائیکل ہے، یہ بتاؤ کہ عید کے کپڑے کیسے بناؤ گی؟ بچی سے پہلے اس کی والدہ اٹھیں اور بتانے لگیں کہ وہ کل ہی شاپنگ کرکے آئیں ہیں اور جو کپڑے اور جوتے عید کیلئے خریدے گئے ہیں وہی کل ٹی وی شو میں پہنیں جائیں گے، کیونکہ شو کیلئے نئے کپڑے جوتوں کا پہنا جانا لازمی ہے۔
یہ سن کر میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور میں نے مخاطب کرتے ہوئے ازراہ مذاق کہا کہ ’کرنے والوں کو شاپنگ کا بہانہ چاہئیے‘۔ اس پر انہوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ یہ بہانہ نہیں حقیقت ہے، اور شو کے پاس میرے سامنے دھر دئیے۔ میں نے اٹھا کر دیکھا تو یہ ایک نجی چینل کے مقبول شو کا پاس تھا۔ جس میں شامل ہونے والے کا نام اور کچھ شرائط و ضوابط درج تھے۔ اس میں اول شرط پر نگاہیں جم کر رہ گئیں۔ کچھ عجیب وغریب شرط تھی کہ،
’’شو میں شرکت کیلئے اچھے کپڑے اور جوتے پہن کر آئیں، اچھے کپڑوں اور جوتوں کے بغیر داخل نہیں ہونے دیا جائے گا‘‘۔
کیا کوئی اب یہ بتائے گا کہ ٹرانسمیشن میں شرکت کا اچھے کپڑے اور جوتوں سے کیا تعلق؟ کیا اچھے کپڑے اور جوتوں کی کوئی تعریف وضع ہے؟ کیا کوئی خاص مالیت طے کرتی ہے کہ آپ کا پہناوا اچھا ہے یا بُرا؟ یوں بھی تو درج کیا جا سکتا تھا کہ صاف ستھرے لباس میں تشریف لائیں۔ جو کہ اصولی بھی ہے اور منطقی بھی، لیکن یہ اچھے کپڑوں اور جوتوں کے ضابطے نے واضح کردیا کہ ان ٹرانسمیشن کا مقصد عوام کو تفریح فراہم کرنا نہیں بلکہ پرکشش اور دلفریب ماحول بنا کر ریٹنگ اور اشتہارات کا حصول ہے۔
اگر یہ ٹرانسمیشن آپ کے چینل کی ضرورت ہے اور عوام بھی اس سے محظوظ ہورہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، اعتراض صرف اس بات پر ہے کہ حسن معاشرت اور سادگی کو نمایاں کرنے کے بجائے اس طرح کی سراسر دکھاوے اور بناوٹ کی شرائط کا اطلاق نہ کیجئے۔ یہ کون سا معیار ہے کہ شرکت اچھے کپڑے اور جوتوں سے مشروط ہو؟ معاشرے میں طبقاتی کشمکش اور مسابقت کی فضا کو ابھارنے کے بجائے سادگی اور رواداری کو نمایاں کیجئے۔

عامر بھائی آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟

عامر بھائی آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟

رمضان کی برکتوں سے ہماری رمضان ٹرانسمیشن کی ریٹنگ اِس قدر اوپر چلی جاتی ہے کہ بھارتی بالی ووڈ کے مہنگے ترین شوز اور ہالی ووڈ کی چکا چوند بھی ماند پڑجاتی ہے۔
ابھی تھوڑی دیر پہلےعامر لیاقت حسین عرف عامر بھائی کا ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں لڑکیوں کے ہمراہ بھارتی گانے گائے جارہے تھے۔ ویسے تو ہمارے ہاں رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر اب وہ کچھ ہورہا ہے جن کا خیال بھی ایک زمانے میں محال تھا۔ جیسا کہ لوگوں کو اپنی قمیض پھاڑنے پرانعام دیا جاتا ہے، زبردستی منہ میں آم ٹھونسا جاتا ہے، اچھی بھلی سنجیدہ سی گھریلو خاتون کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ان کے ہاتھ میں سانپ پکڑا دیا جاتا ہے اور پھر ان سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ یعنی موبائل، بائیک اور دیگر انعامات دینے کی غرض سے انسانیت کی ایسی تذلیل کی جاتی ہے کہ الامان الحفیظ۔ پھر شاید رمضان کی برکتوں سے ہماری رمضان ٹرانسمیشن کی ریٹنگ اِس قدر اوپر چلی جاتی ہے کہ بھارتی بالی ووڈ کے مہنگے ترین شوز اور ہالی ووڈ کی چکا چوند بھی ماند پڑجاتی ہے۔

رمضان ٹرانسمیشن میں ایسی اینٹرٹینمنٹ ہوتی ہے کہ ہاتھ میں ریموٹ ہونے کے باوجود بھی آپ کسی اور چینل پر چاہتے ہوئے بھی نہیں جاسکتے۔ ایک وقت تھا کہ لوگ رمضان میں ٹی وی دیکھنا کم کردیا کرتے تھے، مگر اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ ریٹنگ بڑھانے والے دماغوں نے عوام کو مجبور کردیا کہ وہ نا چاہتے ہوئے بھی ٹی وی دیکھیں۔ دن میں 12، 12 گھنٹوں کی ٹرانسمیشن سے اب اینکر حضرات اِس قدر کما لیتے ہیں کہ اگر پورا سال بھی وہ کچھ نہ کریں تو معاملہ آرام سے چل سکتے ہیں۔
رمضان ٹرانسمیشن کے بانیوں کا ذکر کیا جائے تو ان میں عامر لیاقت بھائی سرفہرست نظر آتے ہیں۔ شروع میں عامر بھائی صرف دین کی باتیں سمجھایا کرتے تھے، پھر انہوں نے کچھ لوگوں کو بھی پروگرام میں بلوانا شروع کیا جن کو سامنے بٹھا کر یہ دین کے قصے سناتے تھے۔ اس میں تھوڑی کامیابی ملی تو عامر بھائی نے کچھ اسپانسرز تلاش کئے اور چھوٹے موٹے انعام بانٹنے لگے، اور پھر جب ذرا ریٹنگ میں مقابلہ اور سخت ہوا تو لوگوں سے اوٹ پٹانگ حرکتیں بھی کروانی شروع کردی اور اس طرح کے ارتقاء کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ فی الحال آپ کے سامنے عامر لیاقت بھائی کے چند روپ پیش کر رہا ہوں، جن کو دیکھ کر میرے ساتھ آپ بھی پوچھنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ عامر بھائی آخر چاہتے کیا ہیں؟
عامر لیاقت عالم دین
عامر بھائی جب دین کی بات کرتے ہیں تو دین کے بڑے مسائل بھی ایسے چٹکیوں میں حل کردیتے ہیں کہ ان کے سامنے بیٹھے مولوی بھی ان کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
عامر لیاقت بطورماڈل
عامر بھائی ضرورت پڑنے پر گھی، کوکنگ آئل وغیرہ کے اشتہارات میں ماڈلنگ بھی کرلیتے ہیں جن میں وہ اپنی پرسوز آواز میں پاکستانی قوم کو مذکورہ گھی استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
عامر لیاقت بطور نقاد
عامر بھائی اکثر نیوز ٹاک شوز میں بھی نظر آتے ہیں جن میں وہ پُرجوش انداز میں حکومتی جبر و استبداد پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور انکو دیکھ کر لگتا ہے ان سے بڑا سیاسی تدبر رکھنے والا، اور پاکستان سے مخلص اور عوام سے ہمدرد فرد کوئی نہیں۔
عامر لیاقت بطور فوجی کمانڈر
عامر بھائی جب بور ہوجاتے ہیں تو محاذ جنگ پر دشمن سے لڑتے ہوئے شہید بھی ہوجاتے ہیں، بوقت شہادت انکا چہرہ منور اور پرسکون ہے اور اس حالت میں بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سبز پرچم مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں اور گرنے نہیں دیتے۔

عامر لیاقت بطور دیالو
عامر بھائی افطار کے بعد ایک سخی کمپئیر کی مانند انعامات کی بارش برساتے ہوئے مال مفت دل بے رحم کی مانند عوام میں بانٹتے نظر آتے ہیں۔
ویسے تو عامر لیاقت کی شخصیت پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن فی الحال ان کی شخصیت کے چند عکس پیش کئے ہیں جن کی روشنی میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ عامر لیاقت صاحب آپ چاہتے کیا ہیں؟ یا تو آپ پورے ماڈل بن جائیں یا آپ پورے عالم دین بن جائیے۔ یا آپ رمضان ٹرانسمیشن کیجئے، دین کی باتیں کیجئے یا جی چاہے تو میوزک شو، یا آپ مکمل اینکر بن جائیں یا کامیاب اداکار بن کر فلمی ہیرو۔

لمبے بوٹوں اور فضائی دوروں کا موسم

جس آفت کے متعلق معلوم ہوتے ہوئے بھی کوئی روک تھام نہ کی جائے اسے آفت کہا جائے یا حکمرانوں اور بیورو کریسی کی نا اہلی اور غفلت؟
لیجئے جناب! وطن عزیز میں مون سون کا آغاز قریباً ہوچکا ہے، ہر سال جون کے آخری ہفتے سے مون سون کی بارشیں معمول کے مطابق شروع ہوتی ہیں اور یوں سارا سال پانی کو ترسنے والا ملک ان دنوں پانی میں ڈوب جاتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے گلی محلوں سے لیکر ٹیلی ویژن کی اسکرینوں، اخبارات کے صفحات اور ٹاک شوز کے موضوعات تک پانی ہی پانی نظر آنا شروع  ہوجاتا ہے۔ ہر نیوز بلیٹن کا آغاز اس خبر سے ہوتا ہے کہ پانی کہاں تک پہنچ گیا ہے اور کتنی ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ ہمارے ہاں تبدیلی چونکہ دیر سے نہیں بلکہ بہت دیر سے آتی ہے اس لئے یہ سمجھنا فضول ہے کہ اس دفعہ کچھ مختلف ہوگا بلکہ حکمرانوں اور بیورو کریسی کی پوری کوشش ہے کہ اس تسلسل کو اسی طرح برقرار رکھا جائے۔
حالیہ تاریخ میں پہلا سیلاب 2010ء میں گزشتہ دور حکومت میں آیا تھا جس سے ملکی معیشت کو قریباً پانچ بلین ڈالر کا نقصان پہنچا، کتنے ہی متاثرین بے گھر ہوئے اور معیشت کا پہیہ جام ہوا، مگر چونکہ ہم دنیا سے الگ چلتے ہیں اور اسی نرالی چال کی وجہ سے ہم نے اس تباہی سے نپٹنے کا حل یہ نکالا کہ اسے اپنے معمول کا حصّہ بنالیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن مون سون کا آغاز ہمارے لئے وہ تباہی لے کر آتا ہے جس کا ہمیں پہلے سے بخوبی علم ہوتا ہے۔
سیلابی ریلے اور دریاؤں کی صورتحال پر گفتگو بعد میں کرتے ہیں، پہلے ہمارے ترقی یافتہ شہروں پر ایک نظر دوڑالی جائے تو بہتر ہے۔ موجودہ پنجاب حکومت جس کو ہدف تنقید بناتے ہوئے سب سے پہلا اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ اس نے پورے صوبے کے وسائل صرف ایک شہر میں لگا دیئے ہیں۔ جس کی مثالوں میں سرِفہرست 50 ارب کی میٹرو بس اور اب 180 ارب کی اورنج ٹرین شامل ہیں۔ باقی درجنوں انڈر پاس اور فلائی اوور اس کے علاوہ ہیں اور دوسری جانب سے یہ حکومتی موقف سامنے آتا ہے کہ ہم دارالخلافہ کو پیرس بنانے کی جانب گامزن ہیں۔
اس ترقی کی اصلیت جاننا ہو تو 20 منٹ کی ایک بارش کے بعد لاہور شہر میں نکل کر دیکھ لیجئے آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ اربوں کے فنڈز سے محض پانی کے تالاب بنائے گئے ہیں یا میٹرو کی پل پر فوارے لگائے گئے ہیں جو بارش کے پانی کی نکاسی نیچے سے گزرنے والی ٹریفک پر کرتے ہیں اور اگر آپ ترقی کے ان میناروں سے تھوڑا ہٹ کر کسی گلی، محلے میں داخل ہوجائیں تو یوں محسوس ہوگا کہ گویا آپ پیرس سے وینس میں داخل ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب اب جبکہ راولپنڈی میں بھی شاندار میٹرو بنادی گئی ہے مگر راولپنڈی کے مشہور نالہ لئی کے پانی سے نپٹنے کی کوئی کوشش سامنے نہیں آئی۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق نالہ لئی میں نہ سیلاب کی پیشگی اطلاع ہوگی اور نہ ہی خبردار کرنے کا نظام کام کرے گا۔ برسات میں نالہ لئی میں کتنا پانی آرہا ہے، بارش کہاں کتنی برسی، پانی کا بہاؤ کس رفتار سے ہے، نالہ لئی کس تیز رفتاری سے  بہہ رہا ہے، پانی خطرے کے نشان سے قریب ہے یا آبادی کو خالی کرنے کا وقت آگیا ہے، محکمہ موسمیات کو کچھ اندازہ ہی نہیں ہوگا۔
اُدھر سندھ کے دارالخلافہ کراچی شہر پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں بھی وہی پارٹی برسرِاقتدار ہے جس نے گزشتہ پانچ سال بھی حکومت میں گزارے مگر حالات اور معاملات ہیں کہ وہ بھی قائم سرکار کی طرح وہیں قائم ہیں۔ ابھی دو دن پہلے آدھے گھنٹے کی بارش کے بعد شہر کی حالت بگڑ کر رہ گئی تھی۔ بجلی کے فیڈر ٹرپ کرگئے اور آدھے شہر نے اندھیرے میں افطاری کی، گویا شہر کراچی کے مکینوں کے لئے یہ بارانِ رحمت کا بھتہ تھا جو حکومت کی جانب سے وصول کیا گیا۔
یہ تو بات ہوگئی ان شہروں کی جہاں آزاد میڈیا کے کیمرے بھی موجود ہیں، سوشل میڈیا کی طاقت بھی قائم ہیں، سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی حرکت میں ہیں، عدالتیں اور اشرافیہ بھی موجود ہیں اور جن کے بارے میں حکومتی موقف یہ ہے کہ وہ ترقی کر رہے ہیں، مگر حالات پھر بھی جوں کے توں ہیں۔ اب چلتے ہیں اس طرف جہاں پہلے سے غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، افلاس، بیروزگاری کی داستانیں ہیں۔ بجلی، گیس، سیوریج اور بنیادی سہولیات نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ یعنی کہ پنجاب اور سندھ کے وہ دیہی علاقے جو دریاؤں اور نہروں کے ساتھ واقع ہیں اور ہر سال سیلاب کی زد میں آنا ان کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔
ہر سال ہزاروں مویشی مرتے ہیں، سینکڑوں انسان پانی کی بے رحم موجوں کے آگے جان کی بازی ہار جاتے ہیں، درجنوں دیہات اپنی فصلوں سمیت زیر آب آجاتے ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کے اس نقصان کو ’’قدرتی آفت‘‘ کے کھاتے میں ڈال کر اپنا دامن بچالیا جاتا ہے۔ حالانکہ جس آفت کے متعلق معلوم ہوتے ہوئے بھی کوئی روک تھام نہ کی جائے اسے آفت کہا جائے یا حکمرانوں اور بیورو کریسی کی نا اہلی اور غفلت؟
یہ بات ہر زی شعور کو معلوم ہے کہ اس موسم میں ملک میں بارشیں زیادہ ہوں گی، ہمارے ہمسائے میں واقع بھارت کے ڈیمز میں پانی جب زیادہ ہوگا تو وہ ہر سال کی طرح اس سال بھی اضافی پانی کا رخ ہماری طرف کردے گا، دریاؤں میں طغیانی ہوگی اور سیلاب کا اندیشہ ہوگا مگر اس سب کے بارے میں کسی کو نہیں معلوم تو وہ حکومت وقت اور متعلقہ محکموں کی بیورو کریسی ہے۔ جن کے پاس کرنے کے لئے اور بہت سے کام ہیں، ہمارے ہاں ان آفات سے نپٹنے کے لیے ایک ادارہ موجود ہے جسے این ڈی ایم اے (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) کہتے ہیں، مگر پچھلے کچھ سالوں سے اس کا کام صرف ٹی وی چینلوں کو یہ مطلع کرنا ہے کہ اب تک کتنی ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور کتنے دیہات سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔
ایک حوالے سے مون سون کا موسم حکمرانوں اور بیورو کریسی کا پسندیدہ موسم بھی ہے، صوبوں اور مرکز کے وہ کرتا دھرتا جو سارا سال مخالفین کو چپ کروانے میں لگے رہے، سیلاب آنے کے بعد لمبے لمبے بوٹ پہن کر ہیلی کاپٹر میں سوار ہوں گے اور متاثرین کے پاس پہنچ کر ان کی داد رسی کے لئے لمبی لمبی تقریریں بھی جھاڑ دیں گے۔ کیمرے کی موجودگی میں امدادی سامان تقسیم کرنے کی رسم کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ دوسری جانب سرکاری افسران کو مال بنانے کا نایاب موقع مل جائے گا۔ ہنگامی سیلابی بجٹ کا اعلان ہوگا، سیلابی پشتوں کی مرمت، سیمنٹ، بجری، خیمے اور دوسری چیزیں ہنگامی طور پر خریدی جائیں گی اور یوں جہاں بہت سارے متاثرین کے گھر اُجڑیں گے وہیں بہت سارے سرکاری افسروں کے گھر ’’سنوریں‘‘ گے بھی ضرور۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا سارے معاملات ہمیشہ اسی طرح ہی چلتے رہیں گے یا کچھ بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے؟ دنیا میں سیلاب جیسی آفات سے نپٹنے کا باقاعدہ نظام موجود ہے جب کہ ہمارے ہاں کچھ کرنے کی جستجو تک نہیں۔ حکومتیں بدل گئیں، افسران تبدیل ہوگئے مگر جو نہیں بدلا وہ نظام ہے۔ پانی سر سے گزر جانے کے بعد ہوش سنبھالنے کی روایت ابھی بھی برقرار ہے اور لگتا یہی ہے کہ اس دفعہ بھی سیلاب آئے گا، مگر حکومتی سطح پر سیلاب کے دوران کمیشن کھایا جائے گا اور سیلاب کے بعد صرف کمیشن بنایا جائے گا۔

ٹائم ٹریول وِد قرآن پاک

یہ کلام ہے خالق کائنات کا اور ہم تک پہنچانے والے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآل وسلم ، تو پھر جیسا خالق، جیسا مبلغ ویسی ہی تخلیق اپنی معراج کو پہنچے گی۔
آؤ یار آج ٹائم ٹریول پر چلتے ہیں!
ہیں؟ تمہیں اندازہ بھی ہے کہ کیا کہہ رہے ہو؟
ہاں بس تم جلدی سے سے ادھر آؤ۔
اچھا جی آگیا۔
ارے یہ کیا؟ یہ ادھر اس اندھیری سی کوٹھڑی میں اس بزرگ بابا جی کیساتھ  تُومجھے ٹائم ٹریول کرائے گا؟
چپ! یہ ادب کی جا ہے، تماشہ نہیں ہے، بابا جی ناراض ہو جائیں گے۔
کیسے ہو بچوں؟
بابا جی ہم ٹھیک ہیں۔
کہو کیسے آنا ہوا؟
بابا جی وہ آپ نے ٹٓئم ٹریول کے بارے میں کہا تھا ناں، دیکھیں میں اپنے دوست کو بھی ساتھ لے آیا۔
اوہ اچھا! باوضو ہو؟
نہیں بابا جی!
وہ سامنے کونے میں پانی پڑا ہے، وضو کرو اور الماری سے قرآن شریف نکال کر میرے پاس آجاؤ۔
ہاہاہاہا یار تیرے باباجی ہمیں فلائنگ میٹ سے ٹائم ٹریول پر لے جانے والے ہیں کیا؟
چپ، جو بولا ہے وہ کرتا جا بس۔
اچھا!
ہاں بچوں، اب قرآن پاک کھولو۔
میں نے تمہارے لئے اردو ترجمے والے قرآن پاک رکھے ہیں تاکہ تم آسانی سے سمجھ سکو۔
شکریہ باباجی!
اس میں تو سب سے پہلے رب کا شکر ادا کیا گیا ہے اور دعا کی گئی ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھٹکنے نہ دے۔
جی بابا جی! سورہ فاتحہ میں یہی سب ہے۔
اس کے بعد سورہ بقرہ میں دیکھو، تہماری پیدائش سے لاکھوں، کروڑوں سال پہلے تخلیق آدم علیہ السلام کا قصہ دیکھو تو کیسے بیان ہوا ہے کہ پڑھتے ہوئے انسان خود کو اسی منظر میں محسوس کرتا ہے۔
اور یہ آگے دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور باقی انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کا ذکر خیر، اور پھر ان کی تخلیق کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ جیسے ہر منظر ہم بھی موجود ہوں۔ جیسے حضرت شعیب علیہ السلام کی بستی سے ابھی ہو کر آئے ہوں، جیسے حضرت عزیر علیہ السلام اور ان کے گدھے کا واقعہ ہمارے سامنے رونما ہوا ہو۔ چلو آگے بڑھو، وہ دیکھو حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائی سیر کے بہانے لے جا رہے ہیں۔
جی بابا جی۔
ارے آگے تو دیکھو، انہیں کنویں میں ڈال دیا اور اب ان کے بھائی حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس جھوٹ بولنے پہنچ گئے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا۔
ارے کتنے جھوٹے ہیں یہ لوگ، یہ تو ہمارے زمانے کے میڈیا سے بھی زیادہ جھوٹے دکھائی دیتے ہیں کہ اپنے والد جو کہ اللہ کے نبی بھی ہیں، ان کے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں،
ہاں یار واقعی، خیر چھوڑ آگے چلو۔
وہ دیکھو اب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی باری آئی۔ اللہ پاک نے انبیا کا ذکرکر کے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآل وسلم کیلئے اسٹیج سجا دیا، یہ حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ شب اسریٰ  میں سفر معراج شروع ہوا۔ وہ اللہ پاک جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ رہے تھے کہ  میرا جلوہ برداشت نہ کر سکو گے، لیکن ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآسلم سے قابہ قوسین کی منزلت پر گفتوگ فرما رہے ہیں۔
وہ دیکھو سورہ رحمن میں جنت کا منظر، حوریں، شہد ، سونے چاندی کے محل، دودھ کی نہریں۔
میرا تو آگے جانے کا جی نہیں کر رہا۔
آگے قیامت کی ہولناکیاں بھی پڑھو تو تمہیں اپنے ارد گرد قیامت بھی نظر آئے گی۔ پہاڑ روئی کی طرح اڑ رہے ہیں۔ اچانک سے اس دنیا کا سارا منظر غائب، جن و انس مارے مارے پھر رہے ہیں۔ یہ سب بتانے کے بعد وہ دیکھو، اللہ پاک اپنے خالق ہونے کی عالمگیر تعریف متعین کرتے ہوئے انسان کو تمام زمانوں کیلئے سمجھا رہا ہے۔ سورہ اخلاص ذرا پڑھو تو سہی، اللہ پاک کیا کہتا ہے؟ جو اس تعریف پر پورا اترے وہ تمہارا معبود باقی سب دھوکا۔
آؤ اب واپس آجاؤ، افطاری کا سامان لینے بھی جانا ہے۔
شکریہ بابا جی! آپ نے کیا سے کیا دکھا دیا، جس سے قرآن پاک کو ہم صرف ایک کتاب سمجھ کر جزدان میں بند کر کے رکھ دیتے ہیں، اور کبھی کبھی ہی زیارت کرتے ہیں، یہ تو انسان کی رہنمائی کیلئے پورا منظر نامہ ہے۔ انسان سمجھے تو گم ہی ہوجاتا ہے اسکے مناظر میں! ایسا کیوں نہین ہوگا بھائی کہ یہ کلام ہے خالق کائنات کا اور ہم تک پہنچانے والے وجہ کائنات صلی اللہ علیہ وآل وسلم، تو جیسا مبلغ ہوگا اسی طرح ابلاغ بھی اپنی معراج کو پہنچے گا۔
سبحان اللہ!
اچھا بابا جی ہم چلتے ہیں۔
جزاک اللہ! بچوں بس دنیا کے کسی بھی منظر کے متلاشی ہو، کوئی سوال بھی تنگ کررہا ہو، تو کہیں اور جانے کے بجائے اللہ کی کتاب سے رجوع کرنا، یہ تمہیں مایوس ننہیں کرے گی، الحمد اللہ!
جزاک اللہ بابا جی!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

Pakistan Election 2018 View political party candidates, results

https://www.geo.tv/election/candidates