احتساب کا آغاز وزیر اعظم سے ہو گا: عمران خان

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مطالبہ کیا ہے کہ چیف جسٹس کے ماتحت پاناما لیکس کے معاملے پر کمیشن قائم کیا جائے اور وہ چاہتے ہیں کہ حزب اختلاف کی تمام جماعتیں ایک آواز میں کمیشن کا مطالبہ کریں۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ’ہمیں 200 نہیں، صرف وزیراعظم کا احتساب چاہیے، وہ حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔‘
٭ ’وزیراعظم اپنی بے گناہی ثابت کریں‘
٭ وزیراعظم مستعفی ہوں بلاول بھٹو اور عمران حان یک آواز
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ کی جتنی مرضی تحریک انصاف کے لوگوں کا احتساب کریں لیکن سب سے پہلے احتساب کا آغاز وزیر اعظم سے ہو گا۔‘
Image copyright AFP
Image caption پاناما پیپز کے منظر عام پر آنے کے بعد عمران خان نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا اور جلسوں کا آغاز کیا
عمران خان صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں خطاب کر رہے تھے جسے پنجاب حکومت کے گڑھ میں عمران خان کا سیاسی قوت کا مظاہرہ بھی سمجھا جا رہا ہے۔
عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میاں صاحب اگر پاناما لیکس کے معاملے پر کرپشن ثابت ہوئی تو آپ گھر نہیں جیل جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت ہے، وزیراعظم کو جواب دینا پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ جمھوریت میں حکومت غلط کرے، عوام کا پیسہ ضائع کرے تو اپوزیشن پوچھتی ہے۔ ’یہ جمہوریت ہے بادشاہت نہیں۔‘
Image caption وزیراعظم نے گذشتہ روز اپنے بیان میں کہا سپریم کورٹ مجوزہ تحقیقاتی کمیشن کے ٹی او آرز میں تبدیلی کر سکتی ہے
لاہور کے علاقے مال روڈ پر ہونے والے جلسے میں عمران خان پارٹی کے دیگر قائدین کے ساتھ جلسے کے پنڈال میں بڑی تعداد میں لاہور کے لوگ پہنچے ، اور انتہائی پرجوش انداز میں حکومت کے خلاف نعرہ بازی کرتے رہے ـ
اس موقع پر مختلف شہروں سے کارکنان قافلوں کی شکل میں بھی پہنچے جبکہ جلسے کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
عمران خان نے اتوار کو فیصل آباد میں جلسے کا اعلان کیا ہے۔
واضع رہے کہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں جلسے کے دوران عمران خان نے سندھ میں انسداد کرپشن تحریک کا بھی اعلان کیا تھا ـ

ضابطہ کار پر حزبِ مخالف کی جماعتیں متفق: شاہ محمود

پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ضابطہ کار طے کرنے کے لیے حزب مخالف کی جماعتیں متفق ہوگئی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چار گھنٹے تک اس معاملے پر غورغوض کے بعد متفقہ ضابطہ کار طے کر لیا گیا ہے اور اس کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اگر اُن پر بدعنوانی کے الزامات ثابت ہوئے تو وہ حکومت چھوڑ دیں گے۔
٭ حزبِ اختلاف وزیراعظم سے استعفے کے مطالبے سے ’دستبردار‘
٭ پاناما لیکس:’مشترکہ ضابطہ کار نہ بنا تو احتجاج ہو گا‘
نامہ نگار شہزاد ملک کے شاہ محمود قریشی نے ضابطہ کار کی تفصیلات تو نہیں بتائیں تاہم اس اجلاس میں شریک سیاسی رہنما کے مطابق اس ضابطہ کار میں پانامالیکس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل صدارتی آرڈیننس کے ذریعے جی جائے جسے پارلیمانی تحفظ بھی حاصل ہو۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس کے علاوہ اس معاملے میں فرانزک کمپنیوں کی خدمات حاصل کی جائیں تاہم کسی بھی کمپنی کی خدمات حاصل کرنے سے پہلے اخبارات میں اشتہار دیے جائیں تاکہ پیشہ وار کمپنی کا انتخاب عمل میں لایا جا سکے۔ اس ضابطہ کار میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات سب سے پہلے وزیراعظم اور اُن کے خاندان سے شروع کی جائیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حزب مخالف کی جماعتوں کے ٹی او آرز حکومت کو بھیجے جائیں گے اور اگر حکومت نے ان ٹی او آرز کو تسلیم نہ کیا تو پھر حزب مخالف کی جماعتیں پلان بی پر عمل درآمد کریں گی
دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اگر اُن پر بدعنوانی کے الزامات ثابت ہوئے تو وہ حکومت چھوڑ دیں گے۔
یاد رہے کہ پاناما لیکس کے بعد پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت سے اس معاملے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
منگل کو بنوں میں عوامی جلسے سے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف نے حکومت کے ناقدین خصوصاً پاکستان تحریکِ انصاف کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’نیا پاکستان بنانے والے سنہرے خواب دکھا کر بھول گئے ہیں۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ ’دو سال دھاندلی کا رونا روتے رہے اور دھرنے کرتے رہے۔ پھر سپریم کورٹ نے کہا کہ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی ہے۔ یہ اُن پر طمانچہ تھا لیکن قوم سے معافی بھی نہیں مانگی۔‘
Image copyright AFP
Image caption ہم گیڈر بھبھکیوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ہم عوامی مینڈیٹ لے کر آئے ہیں۔ آپ کے کہنے پر گھر چلے جائیں یہ منہ اور مسور کی دال۔
وزیراعظم نواز شریف نے بنوں کے جلسے میں بھی پاناما لیکس کے بعد سیاسی بحران کا ذکر کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’آج پھر وہ 22 سال پرانی باتیں کر رہے ہیں۔ نئے نئے الزام لگا رہے ہیں۔ ہم ایک بار پھر سپریم کورٹ میں چلے گئے ہیں۔ ایک پائی کرپشن بھی ثابت ہوئی تو گھر واپس چلے جائیں گے۔‘
نواز شریف جارحانہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ ’ہم گیڈر بھبکیوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ہم عوامی مینڈیٹ لے کر آئے ہیں۔ آپ کے کہنے پر گھر چلے جائیں یہ منہ اور مسور کی دال۔۔۔ آپ سمجھتے کیا ہیں اپنے آپ کو؟‘
پاناما لیکس کی تحقیقات کے ضوابطِ کار طے کرنے کے لیے سات اپوزیشن جماعتوں کے نمائندے منگل کو بھی سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن کے گھر پر سر جوڑ ے بیٹھے ہیں۔
دوسرے دن دو سیاسی جماعتوں کے نمائندے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ان جماعتوں میں قومی وطن پارٹی او

پاکستان کرکٹ بورڈ احتسابی عمل سے ماورا کیوں؟

گگلی ماسٹر عبدالقادر کا ’’ایکسپریس‘‘ کو خصوصی انٹرویو۔ فوٹو: فائل
پاکستان کی تاریخ عظیم کرکٹرز سے بھری پڑی ہے، ان کھلاڑیوں نے دنیا بھرمیں نہ صرف ملک کی پہچان بنائی بلکہ اپنے منفرد کھیل سے ملک وقوم کی نیک نامی میں اضافہ بھی کیا، ان بڑے کرکٹرز میں ایک بڑا نام عبدالقادر کا ہے۔
گگلی ماسٹر کے نام سے عالمگیر شہرت رکھنے والے لیگ سپنرکو دنیا کے متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا، چیف سلیکٹرکی ذمہ داری نبھاتے ہوئے انہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009ء کے فاتح سکواڈ کا انتخاب بھی کیا، ایشیا کپ اور مختصر طرز کے عالمی کپ میں گرین شرٹس کی شرمناک شکستوں کے بعد اٹھنے والے طوفان کا رخ موڑنے کے لئے پی سی بی اور ٹیم مینجمنٹ میں تبدیلیوں اور تقرریوں کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے، ’’ایکسپریس‘‘ نے عبدالقادر سے ملکی کرکٹ کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے تفصیلی نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل ذیل میںکچھ یوں ہے۔
ایکسپریس: پاکستان کرکٹ ٹیم کی ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شرمناک شکستوں کا ذمہ دار آپ کس کو سمجھتے ہیں؟
عبدالقادر: پاکستان کرکٹ بورڈ میں بیٹھے عہدیداروں کی نیتیں ٹھیک نہیں ہیں، بورڈحکام بھی شائقین کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہیں جو سیاستدان اس ملک کی عوام کے ساتھ کرتے ہیں،جب بھی مسئلے مسائل جنم لیتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ کمیٹیاں بنا دو اور پھر ان کمیٹیوں کی آڑ میں ایشوز کو دبا دیا جاتا ہے، وہ قومیںہی آگے بڑھتی ہیں جو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں لیکن افسوس ہم نے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سیکھنے کی بجائے وہی پرانی روش برقرار رکھی جس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں،اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو پی سی بی میں بادشاہت کا نظام راج ہے، عہدیدارآتے ہیں اور انجوائے کرتے ہیں، اپنے اہل خانہ اوردوستوں کونوازتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ کسی چیز کی ابتدا اور انتہاء بھی ہوتی ہے،قومی ٹیم زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ ہاری، بڑا افسوس ہوا کہ ہم نے گرین شرٹس کو کہاں چھوڑا تھا اور یہ اس کو کہاں لے آئے ہیں، بعدازاں رہی سہی کسر ورلڈ کپ 2015ء میں ٹیم کی شرمناک کارکردگی نے پوری کر دی، ہارنے کے بعد پی سی بی نے نیا ڈرامہ رچایا اور بنگلہ دیش کے خلاف سیریز میں حصہ لیا، اس سیریز میں بھی ہم کلین سویپ ہو گئے، پھر ایک ڈرامہ کیا گیا اور زمبابوے کی ترلے منتیں کرنا شروع کر دی گئیں،مہمان ٹیم کو 5 لاکھ ڈالر کے علاوہ متعدد مراعات کی پیشکش بھی کی گئی اور بعد میں سیریز کے مقابلے پاکستان کے مختلف شہروں میں کروانے کی بجائے صرف لاہور میں ہی کروا دیئے گئے، میں کہتا ہوں کہ بورڈ حکام سیاستدانوں کی طرح عوام کے سامنے سفید جھوٹ بولتے اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایکسپریس: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دونوں میگا ایونٹس میں ٹیم کی ناکامیوں کے ذمہ دار چیف کوچ وقار یونس ہی تھے، اگر ایسا نہیں تو سارا نزلہ ان پر ہی کیوں گرایا گیا؟
عبدالقادر: ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کپ میں ٹیم کی ناکامی کا ذمہ دار کسی کرکٹر کو نہیں سمجھتا بلکہ سارے کا سارا قصور پاکستان کرکٹ بورڈ کا ہے، جب بورڈ حکام کسی کو لاتے ہیں تو یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اس کا کریکٹر کیا ہے، ملک وقوم کے لئے خدمات کیا ہیں اور ماضی میں اس پر کوئی داغ تو نہیں ہے، ان سب باتوں کی پرواہ کئے بغیر مخصوص کرکٹرز کی جب لاٹریاں نکالی جاتی ہیں تو افسوس ہوتا ہے، جو بھی چیئرمین بورڈ آتا ہے وہ باہر کے ملکوں کو ترجیح دینے والے کرکٹرز کے ہی ناز نخرے اٹھاتا ہے،خان محمد، وسیم راجہ اور مشتاق محمد انگلینڈ میں رہتے تھے، انہیں وہاں سے بلا کر بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ میں ذمہ داریاں دی گئیں، مدثر نذر، عاقب جاوید اور مشتاق احمد کو بڑے عہدوں سے نوازا گیا ، ہمارے بورڈ کے کرتا دھرتا یا تو گوری چمڑی سے مرعوب ہوتے ہیں یا بیرون ملک آباد قومی کرکٹرز کے ناز نخرے اٹھاتے ہیں اور پھر ان لوگوں کو ہمارے سروں پر بٹھا دیا جاتاہے، میری نظر میں یہ بہت بڑا جرم ہے، بورڈ حکام سے پوچھتا ہوں کہ دوسرے ملکوں میں رہنے والے کرکٹرز کیا ماجد خان، جاوید میانداد، ظہیر عباس، وسیم باری، محسن خان، سرفراز نواز، محمد یوسف، عامر سہیل اور راشد لطیف سے بڑے کھلاڑی ہیں، اگر یہ کرکٹرز عہدیداروں کو اتنے ہی برے لگتے ہیں توان کے نام کے انکلوژر بھی ختم کر کے ان پر اپنے چہیتے کرکٹرز کے نام لکھوا لیں۔
ایکسپریس: آپ کی رائے میں قومی ٹیم کے لئے ملکی یا غیر ملکی میں سے زیادہ کونسا سا کوچ بہتر رہے گا؟
عبدالقادر: ماضی میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ غیر ملکی کوچ کا تجربہ بری طرح ناکام رہا ہے، سوچنے اور محسوس کرنے کی بات ہے کہ رچرڈ پائی بس، ڈیو واٹمور، جیف لاسن اور ڈیو واٹمور نے پاکستانی ٹیم کے ساتھ کوچنگ کی ذمہ داریاں نبھائیں اور پی سی بی سے پاؤنڈز اور ڈالرز میں رقوم وصول کیں، بھاری معاوضے لینے کے باوجود یہ کوچز عالمی سطح پر پاکستانی ٹیم کو ایک بھی تمغہ نہیں جتوا سکے، پاکستانی ٹیم نے1992 اور 2009 کے ورلڈ کپ جیتے، دونوں بار کوچ انتخاب عالم ہی تھے، جتنے گریٹ کرکٹرز پاکستان کی سرزمین نے پیدا کئے ہیں اس کے بعد بھی ہم نے ٹیم کے لئے کوچ باہر سے امپورٹ کرنا ہے تو یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے، میں تو کہتا ہوں کہ ایک ملک کے کوچ کو دوسرے ملک میں جا کر کوچنگ کی اجازت ہی نہیں ملنی چاہیے،جب ایک ملک کی فوج کا سپاہی یا آفیسر دوسرے ملک کی فوج میں شامل ہو کر جنگ نہیں لڑ سکتا، تو کرکٹ میں ایسا کیوں کیا جا رہا ہے، میرا مطالبہ ہے کہ آئی سی سی ایک دوسرے کے ملکوں میں جا کر کوچنگ کرنے کی پریکٹس کو بند کرے کیونکہ غیر ملکی کوچ کو صرف اور صرف پیسے سے غرض ہوتی ہے، اگر غیر ملکی کوچ ہی ناگزیر ہے تو یہ ذمہ داری ویسٹ انڈیز کے ویوین رچرڈ کو کیوں نہیں سونپ دی جاتی۔
ایکسپریس: ٹیم جب ہارتی ہے تو مہذب ملکوں کی ٹیموں کی طرح ہمارے کوچ اور کپتان شکست کی ذمہ داریاں قبول کرنے کی بجائے ملبہ ایک دوسرے پر کیوں ڈالتے ہیں؟
عبدالقادر: کرکٹ میںکوچ کا کوئی کردار نہیں ہوتا، میرا پی سی بی حکام سے سوا ل ہے کہ سالہا سال سے کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کو بھی کیا کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے؟یہ پیسے کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، میں اگر چیئرمین پی سی بی ہوتا تو ٹیم کے ساتھ کوئی کوچ ہی نہ رکھتا کیونکہ ٹیم کے ساتھ جب کوچ ہوتا ہے تونت نئے مسائل جنم لیتے ہیں، انٹرنیشنل ایونٹس یا سیریز میں ہارنے کی صورت میں شکست کا ملبہ کوچ کپتان پر گراتا ہے اور کپتان کوچ کو قصور وار قرار دیتا ہے، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اور ایشیا کپ میں ٹیم کی شکستوں کی ذمہ داری کسی نے قبول نہ کی، چور مچائے شور کی آوازیں ہم تک پہنچیں، کوچ نے کپتان، کپتان نے کوچ، شہریار خان نے نجم سیٹھی اور نجم سیٹھی نے شہریار خان کو قصور وار قرار دیا، میری تجویز ہے کہ کوچ کا عہدہ ختم کر کے تمام اختیارات کپتان کو ہی سونپتے ہوئے کہاجائے کہ جیت کا کریڈٹ اگر تمہیں ملے گا تو ہار کی ذمہ داری بھی قبول کرنی پڑے گی، کوچ کو ملنے والا بھاری معاوضہ ڈومیسٹک کرکٹ کی بہتری اور سابق کرکٹرز، امپائرز اورگراؤنڈ سٹاف کی فلاح وبہبود پر خرچ ہونا چاہیے، عبدالرحمن بخاطر کی آج بھی اس لئے عزت کرتا ہوں کہ انہوں نے میرا بینیفٹ میچ کروایا جس کی وجہ سے مجھے50 ہزار ڈالر کی رقم میسر آئی، بخاطر نے میری طرح اور بھی ان گنت کرکٹرز کے بینیفٹ میچ کروائے جس کی وجہ سے ان کے مالی حالات میں بہتری آئی۔
ایکسپریس: پی سی بی نے انضمام الحق کو چیف سلیکٹر مقرر کیا ہے، آپ اس فیصلے کو کیسا دیکھتے ہیں؟
عبدالقادر: میری رائے میں چیف سلیکٹر اسی کو ہونا چاہیے جس نے کم ازکم 50 ٹیسٹ میچز کھیلے ہوں۔ اور اس معیار پرانضمام الحق پورا اترتے ہیں، ان کی زندگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کرکٹ کے زمانے میں ہی ان کا رجحان مذہب کی طرف ہو گیا، یہ بھی بڑا کام ہے جس کی میں ان کو شاباش بھی دیتا ہوں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ مذہبی رجحان کے باوجود دوسرے کرکٹرز کی طرح ان کی دولت، عزت،شہرت اور میڈیا میں رہنے کی خواہش ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئی ہے، اگر انہوں نے متقی اور پرہیز گاروں کا راستہ اپنا لیا تھا تو سعید انور، سعیداحمد اور ذوالقرنین کی طرح کیوں نہیں بن گئے۔پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ پی سی بی عہدیداران داغی بندوں کو پسند کرتے ہیں، جسٹس قیوم رپورٹ کے فیصلے کی روشنی میں شاید انضمام الحق ہی بچتے تھے ان کو بھی بورڈ میں لے لیا گیا ہے۔ شہریار خان نے خود اپنی کتاب میں اوول ٹیسٹ تنازع کا ذمہ دار انضمام الحق کی ضد اور ہٹ دھرمی کو قرار دیا ، اعجاز بٹ نے اپنی رپورٹ میں انہیں ڈکٹیٹر قرار دیا،جب کسی بندے پر اتنے داغ ہوں توپھر اسے چیف سلیکٹر کی ذمہ داری کیسے سونپی جا سکتی ہے، بہتر ہوتا کہ کسی کو بھی سلیکشن کمیٹی کا سربراہ بنانے سے پہلے شہریار خان اپنی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیتے اور دلچسپی رکھنے والے کرکٹرز کے انٹرویو کر کے پوچھتے تمہارا منشور کیا ہے، کھلاڑیوں کا انتخاب کن کن پیمانوں پر کرو گے۔
ایکسپریس: اطلاعات ہیں کہ چیئرمین پی سی بی شہریارخان آپ کو بورڈ میں ذمہ داری دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
عبدالقادر: میں شہریار خان کی بڑی عزت کرتا ہوں، میںان کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ انگلینڈ میں پاکستان کے سفیر تھے، لیکن میری رائے میں شہریارکو چیئرمین شپ کی دوسری اننگز نہیں کھیلنی چاہیے تھی، بورڈ میں دوبارہ آنے سے ان کی عمر بھر کی عزت اور نیک نامی داؤ پر لگی ہوئی ہے، بورڈ میں موجود عہدیدار ان کے ساتھ وہی شطرنج والا کھیل کھیل رہے ہیں اور وہ بورڈ میں شٹل کاک بنے ہوئے ہیں، پی سی بی کے تمام تر اختیارات نجم سیٹھی کے پاس ہیں لیکن ٹیم کی شکستوں اور بورڈ کے خراب معاملات کا ذمہ دار شہریار خان کو ٹھہرایا جاتا ہے۔جب تک نجم سیٹھی کرکٹ بورڈ میں ہیں، میں کوئی بھی عہدہ کسی بھی صورت قبول نہیں کروں گا، اگر وہ 10 سال تک بھی بورڈ میں رہے اور مجھے آفرزہوتیں رہیں توہر بار میرا جواب انکار کی صورت میں ہی ہوگا، سچ پوچھا جائے تو میں نے ہی انکار نہیں کیا بلکہ جاوید میانداد، سرفراز نواز، عامر سہیل ، محسن خان، راشد لطیف اور محمد یوسف بھی بورڈ میں کام کرنے سے معذرت کر چکے ہیں۔
ایکسپریس:پاکستان میں لیگ سپن کا شعبہ زوال پذیر ہے، آپ قومی ڈیوٹی سمجھتے ہوئے میدان میں کیوں نہیں آتے؟
عبدالقادر: میں آج جو کچھ بھی ہوں، اس ملک کی بدولت ہوں، اس ملک کے لئے کوئی بھی ذمہ داری نبھانا اعزاز کی بات سمجھتا ہوں لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کو شاید میری ضرورت ہی نہیں ہے،کسی عہدیدار نے رابطہ نہیں کیاکہ آپ ہماری نظر میں ہیں چاہتے ہیں کہ اپنا سپن بولنگ کا تجربہ ملکی کرکٹ کی بہتری کے لئے وقف کریں، بورڈ کا لاڈلہ مشتاق احمد ہے جس کی بار بار لاٹریاں نکالی جاتی ہیں،ادب کا مقام یہ بھی ہے کہ جب مشتاق احمد کو آفرز ہوتی ہیں تو وہ کہیں کہ عبدالقادر اس جاب کے ساتھ زیادہ بہتر انصاف کر سکتے ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ اس طرح کے کرکٹرز اپنی باری کا انتظار کیوں نہیں کرتے۔
ایکسپریس:آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے گھر سے احتساب کا سلسلہ شروع کیا، آپ کی رائے میں آرمی افسروں اور سیاستدانوں کی طرح پی سی بی میں موجود ذمہ داروں کا بھی احتساب ہونا چاہیے؟
عبدالقادر:میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے تاریخ میں پہلی بار اپنے ہی گھر سے احتساب کا آغاز کیا اور الزام ثابت ہونے پر افسروں سے مراعات واپس لے کرانہیں نوکریوں سے برطرف کیا، اب سیاستدانوں کے احتساب کی بھی بازگشت سنائی دینا شروع ہو گئی ہے، جب ہر طرف احتساب کا عمل شروع ہو گیا ہے توپاکستان کرکٹ بورڈ میں اس کا آغاز کیوں نہیں ہوتا،عہدیداروں کی ڈگریاں چیک کیوں نہیں ہوتیں، ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شکستوں کی وجوہات معلوم کیوں نہیں کی جاتیں، یہ کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ کس کس کی پرچی پر بورڈ میںکن کن کو پرکشش معاوضوں پر نوکریاں دی گئیں،جن لوگوں نے بادشاہت کی اور بورڈ کے خزانے کو بری طرح نقصان پہنچایا، ان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیوں نہیں کیا جاتا،میری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ اگر کوئی اور نہیں تو آپ ہی از خود نوٹس لے لیں تاکہ کرکٹ کو تباہی سے مزید بچایا جا سکے۔
ایکسپریس: پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم میں بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟
عبدالقادر: مجھے پاکستان میں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جوحکومت اور بورڈ میں موجود مضبوط لابی کے ہوتے ہوئے آزادانہ فیصلہ کر سکے، اس صورت حال سے نکلنے کے لئے میری ایک تجویز ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں دو گورے لے آؤ، ایک کو شہریار ، دوسرے کو نجم سیٹھی کی جگہ  بٹھا دو، یہ ایسی شخصیات ہوں جن کو ایڈمنسٹریشن کا بھی تجربہ ہو اور وہ کرکٹ کے امور سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہوں،اب بھی کہتا ہوں کہ جن لوگوں نے ملکی کرکٹ کے ساتھ کھلواڑ کیا،انہیں سزائیں ضرور ملنی چاہئیں۔

پاناما لیکس:’مشترکہ ضابطہ کار نہ بنا تو احتجاج ہو گا‘

پاکستان میں حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں کے رہنماوں نےکہا ہے کہ تمام اپوزیشن اس بات پر متفق ہے کہ جن لوگوں کے خلاف تحقیقات ہونی ہیں وہ خود ضابطہ کار طے نہیں کر سکتے۔
٭ضابط کار تبدیل نہیں ہو گا: وفاقی کابینہ کا فیصلہ
٭’سب کا احتساب ہو لیکن آغاز وزیر اعظم سے ہو‘
وفاقی کابینہ کی طرف سے پاناما لیکس کے بعد وزیر اعظم پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن کے ضابطہ کار کی منظوری دینے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ان رہنماؤں نے کہا کہ اگر حزب اختلاف کا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو پھر عوامی احتجاج ہو گا۔
بی بی سی اردو سروس کے ریڈیو پروگرام سیربین میں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ قوم کے لیے وہی ضابطہ کار قابل قبول ہو گا جو حزب اختلاف کی جماعتوں کی مشاورت سے بنایا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود نے کہا کہ اپوزیشن کا موقف اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ جن لوگوں کو الزامات کا سامنا ہے وہ ضابطہ کار نہیں بنا سکتے۔
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ تحقیقاتی کمیشن کے ’ٹی او آر‘ ساری سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے بنائے جانے چاہیں۔
ضابطہ کار کے بارے میں وفاقی کابینہ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں ریٹائرڈ جج سے تحقیقات کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جب اپوزیشن کی طرف سے دباؤ پڑا تو وہ سپریم کورٹ کے جج کے تحت تحقیقاتی کمیشن بنانے پر تیار ہو گئے۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت پر جب اور دباؤ پڑے گا تو وہ ضابطہ کار تبدیل کرنے پر تیار ہو جائے گی۔
بدعنوانی کے الزامات پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شفقت محمود کا کہنا تھا کہ آف شور کمپنیاں جب بنائی گئیں اس وقت وزیر اعظم کے دونوں صاحبزادوں کی عمر بہت کم تھی اور وہ اپنے والد کی کفالت میں تھے۔
انھوں نے کہا کہ یہ کمپنیاں بنانے کے لیے پیسہ کہاں سے بھیجا گیا۔ ان کے خیال میں تحقیقات کا محور اور مرکزی نکتہ یہ ہی ہونا چاہیے۔
سعید غنی نے کہا کہ جو لوگ شریف خاندان کے مالی معاملات کے بارے میں جانتے ہیں ان کو رتی برابر بھی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ معاملات شفاف نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ بحران پاناما لیکس کے علاوہ وزیر اعظم کے خاندان کے افراد کے اپنے بیانات میں تضاد سے شروع ہوا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں شفقت محمود نے کہا کہ حکومت نے جو ٹی او آرز بنائے ہیں ان میں قرضوں اور مختلف دیگر مسائل شامل کر کے اس کا دائر کار بہت وسیع کر دیا گیا ہے اور عام خیال یہ ہی ہے کہ اس کے نتائج آئندہ دس سال تک نہیں نکلیں گے۔
حکومت پر دباؤ ڈالنے کے حوالے سے شفقت محمود نے کہا کہ ان کی جماعت پہلے ہی مہم شروع کر چکی ہے اور اتوار کو اس سلسلے میں لاہور میں جلسہ کرنے والی ہے۔
دوسری طرف سیعد غنی کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے دو مئی کو اپوزیشن جماعتوں کا ایک اجلاس طلب کر رکھا ہے جس میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ قوم کے سامنے متبادل ضابطہ کار پیش کیا جائے۔
انھوں نے کہا پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ کوئی فیصلہ تنہا نہ کیا جائے اور اپوزیشن کی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ایوان کے اندر اور سڑکوں پر بھی احتجاج کیا جا سکتا ہے۔

تن سازی کے شوق میں جان کی بازی، ممنوعہ ادویات کا استعمال کون روکے گا؟

کھیل کسی بھی معاشرے میں تحریک اور زندگی کی علامت ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل
کھیل کسی بھی معاشرے میں تحریک اور زندگی کی علامت ہوتے ہیں، صحت مندانہ سرگرمیاں نوجوانوں میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی لگن پیدا کرتی ہیں۔
جذبوں کی بیداری اور کامیابی کا جنون انہیں منفی سرگرمیوں سے دور رکھتا ہے، اس مہم جوئی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا لیکن چند مفاد پرستوں نے کھیلوں کی فضا کو بھی آلودہ کرنے کے ہتھکنڈے تلاش کرلیے ہیں، وہ نوجوانوں کے کامیابی کے لیے جنون کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے انہیں ممنوعہ ادویات کی تاریک دنیا میں دھکیل دیتے ہیں، مصنوعی طور پر کارکردگی بڑھانے کا یہ راستہ بالآخر موت کے گھپ اندھیروں میں ختم ہوتا ہے۔
فٹبال، کرکٹ، ہاکی سمیت دنیا بھر کے مقبول کھیلوں اور ایتھلیٹکس میں قوت بخش ادویات کے استعمال کی سینکڑوں مثالیں ریکارڈ کا حصہ بن چکیں، کئی انٹرنیشنل پلیئرز بھی کیریئر اور زندگی داؤ پر لگاچکے، تاہم واڈا کی طرف سے سخت قوانین متعارف کروائے جانے کے بعد واقعات میں کمی ہوئی ہے، دوسری طرف پاکستان میں شعور کی کمی ہونے کی وجہ سے ڈرگز کے دانستہ یا غیر دانستہ استعمال کے کیس آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں، ماضی میں فاسٹ بولرز شعیب اختر اور محمد آصف ملک کی بدنامی کا باعث بنے، یاسر شاہ ڈوپنگ میں پکڑے جانے کے بعد حال ہی میں بحال ہوئے ہیں، ایتھلیٹکس کی بھی کئی مثالیں موجود ہیں، تاہم متعدد کھیلوں میں پاکستان کی انٹرنیشنل سطح پر نمائندگی برائے نام ہونے کی وجہ سے کھلاڑیوں کے ٹیسٹ ہوتے ہیں نہ ایسے واقعات سامنے آتے ہیں، دوسری جانب تن سازی ایک ایسا کھیل ہے جو تیزی سے مقبول ہورہا ہے، سینکڑوں نوجوان اس کو کیریئر بنانے تو ہزاروں صرف شوق کے لیے بھی جاری رکھتے ہیں، ہالی وڈ کے بعد بالی وڈ کے ہیروز نے بھی خوبصورت، سڈول اور تنومند جسامت کا ایک معیار متعارف کروایا جس کو آئیڈیل مان کر نوجوانوں کو جم ٹریننگ کی ترغیب ملتی ہے۔
مناسب عمر اور کوالیفائیڈ انسٹرکٹرز کی رہنمائی میں تن سازی میں کوئی حرج نہیں لیکن مفاد پرستوں کے ہتھے چڑھ کر ادویات اور فوڈ سپلیمنٹس کا استعمال جان کی بازی لگادینے کے مترادف ہے، ہیلتھ کلبز کی مانیٹرنگ کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے غیر تربیت یافتہ کوچ مالی فوائد کے لیے باڈی بلڈرز کو جلد از جلد مثالی جسامت حاصل کرنے کے شارٹ کٹ راستے پر ڈال دیتے ہیں جس کے تباہ کن نتائج تواتر سے سامنے آنے لگے ہیں، رواں ماہ کے 17 روز میں ہی 4 نامور تن سازوں کی موت نے نوجوانوں کو واضح پیغام دیدیا ہے کہ ایسا مصنوعی جسم بنانے کا کوئی فائدہ نہیں جس کو بہت جلد مٹی میں مل جانا ہو، سیالکوٹ کے حامد علی عرف استاد گجو، لاہور سے تعلق رکھنے والے ہمایوں خرم، گوجرانوالہ کے مطلوب حیدر اور رضوان کی اموات سخت اقدامات کا تقاضا کررہی ہیں
دوسری طرف تن سازی کا کھیل لاوارث ہونے کی وجہ سے ملک میں اس کے معاملات کو کنٹرول کرنے والا کوئی سسٹم ہی موجود نظر نہیں آرہا، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن میں عارف حسن کے تیسری بار انتخاب کے خلاف محاذ جنگ کھولا گیا تو متوازی سپورٹس فیڈریشنز کا سلسلہ عروج پر رہا، ان میں پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن بھی شامل تھی، آئی او سی نے اکرم ساہی کی سربراہی میں پی او اے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو بالآخر حکومت کو بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا، تاہم متوازی فیڈریشنز اب بھی قائم ہیں، عارف حسن کی حمایت یافتہ پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن کے برائے نام صدر نوید اکرم چیمہ اور سیکرٹری طارق پرویز ہیں، دوسری جانب پاکستان سپورٹس بورڈ صدر شیخ فاروق اور سیکرٹری سہیل انور کے تحت کام کرنے والی متوازی باڈی کو فنڈز دے رہا ہے، ساؤتھ ایشین چیمپئن شپ بھی اسی سیٹ اپ نے کروائی، اختیارات کا شوق تو سب کو ہے لیکن ذمہ داری اٹھانے کو کوئی تیار نہیں، قیمتی جانیں جارہی ہیں لیکن ممنوعہ ادویات کی حوصلہ شکنی کا کوئی سسٹم ہے نہ ہی ڈوپنگ کا کوئی طریقہ کار، غفلت کا سلسلہ چلتا رہا تو موت کا سفر نہیں رک سکتا۔
اس حوالے سے ’’ایکسپریس‘‘ نے سپورٹس فزیشن شعبہ فزیکل میڈیسن میو ہسپتال اور قوم ہاکی ٹیم کے سابق ڈاکٹر اسد عباس سے خصوصی گفتگو کی جس میں انہوں نے بتایا کہ نوجوان تن ساز راتوں رات جسم بنانے کیلئے اینابولک سٹیرائیڈز استعمال کرتے ہیں جس سے وقتی طور پر جسم پھول جاتا ہے، اس کے استعمال سے بظاہر جسم کے پٹھے بڑھ جاتے ہیں، وزن میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن دل کا سائز بڑھنے، گردے اور پھیپھڑے کمزور ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، خون کی نالیاں سکڑ جاتی اور ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں، ان ادویات کے استعمال سے نوجوان کچھ ہی عرصے میں اپنی صحت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، وہ دن بدن موت کے قریب سے قریب تر ہوتا جاتا ہے،ان سٹیررائیڈز کے ہارمونز پر بھی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں،مردوں کے جسم سے بال غائب، آواز باریک اور نسوانی خصوصیات نمایاں ہونے لگتی ہیں، ادویات استعمال کرنے والے تن ساز پھولے ہوئے غبارے کی مانند ہوتے ہیں جس سے کسی بھی وقت ہوا نکل سکتی ہے۔
ملک بھر میں بڑی تعداد میں ہیلتھ کلب ایسے ہیں جہاں پروفیشنل کوچ یا انسٹرکٹر نہیں ہیں، نوجوان تن ساز جسم بڑھانے کے لیے دوسروں کے مشورے پر بعض ادویات بے جا استعمال کرتے ہیں جو ان کی صحت کے لیے تعمیری کے بجائے تخریبی عمل کرتا ہے، فوڈسپلیمنٹس اور طاقت بخش ادویات کے نام پر نوجوانوں کو زہر کھلانے والے خوب مال بنا رہے ہیں زندگیوں سے کھیلنے والوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ متوازن غذا سے جسم کی نشوونما میں وقت تو ضرور لگتا ہے لیکن اس کے استعمال سے صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک تن ساز نوجوان کو 60 سے 70 فیصد کاربوہائیڈریٹس، 10 سے 15 فیصد چکنائیوں اور 10 سے 15 فیصد پروٹین کا استعمال کرنا چاہیے، اس کے علاوہ معدنیات اور وٹامن، پوٹاشیم، زنک اور کیلشیم کا بھی مناسب استعمال کیا جائے تو 6 ماہ میں جسم صحت مند ہوجاتا ہے،ایونٹ کی تیاری کے لیے خوراک میں 50 فیصد کاربوائیڈریٹس، 30 فیصد فیٹس اور 15 فیصد پروٹین استعمال کیے جائیں۔
ڈاکٹر اسد نے کہا کہ حال ہی میں 4 تن سازوں کی موت لمحہ فکریہ ہے، نوجوانوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے والوں پر آہنی ہاتھ ڈالے جانے کی ضرورت ہے،گرچہ پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن نے فی الحال تمام کلبز کی رکنیت معطل کرکے تمام سے ڈرگز استعمال نہ کروانے کا حلف لینے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم یہ اقدامات کافی نہیں، مفاد پرست عناصر اس کو ایک رسمی کارروائی خیال کرتے ہوئے دوبارہ مذموم دھندہ شروع کردینگے اور ناسمجھ نوجوان ان کے جال میں پھنس کر تن سازی کے لیے ادویات کا بے جا استعمال کرتے رہیں گے۔
حکومت کو چاہیے کہ وزارت کھیل یا صحت کے تحت قوانین بنائے جائیں، مانیٹرنگ کا ایک سسٹم بھی وضع کیا جائے، نوجوانوں کو اس حوالے سے شعور دینے کے لیے سیمینارز اور پروگراموں کا استعمال کرنا بھی ضروری ہے، فوڈ سپلیمنٹس اور ادویات کسی کوالیفائیڈ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر فروخت ہی نہیں ہونی چاہئیں، تن سازی کے شوقین نوجوانوں کو گمراہ کرکے ادویات کے استعمال کی ترغیب دلانے اور مال بنانے والوں کو سزائیں دینے کی ضرورت ہے، کسی نوجوان کی ہلاکت کا واقعہ سامنے آئے تو اس کی مکمل تحقیقات کرتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف خلاف قانونی چارہ جوئی کی مثالیں سامنے آنے سے بھی ممنوعہ ادویات کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سٹیرائیڈز کی سمگلنگ اور فروخت کے حوالے سے انٹرنیشنل سطح پر سخت قوانین اور ان پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے، پکڑے جانے والوں کو سخت سزائیں بھی ملتی ہیں، ہمارے ہاں بھی سمگلنگ کیخلاف قوانین ہیں تاہم دیگر اشیا کے ساتھ سٹیرائیڈز بھی دھڑلے سے فروخت کی جارہی ہیں، یہ دھندا کرنے والے ایکسپائری کے قریب 5ہزار والا سپلیمنٹ 500 میں خرید کر یہاں نئی پیکنگ کرکے فروخت کرتے ہیں، انہوں نے تجویز پیش کی کہ حلف لینے کے بجائے ایک پالیسی وضع کی جائے کہ 15 کلبز پر ایک کوالیفائڈ ڈاکٹر کا سپورٹس فزیشن کا تقرر کیا جائے جو صورتحال کو مانیٹر اور نوجوانوں کی درست رہنمائی کرسکے۔

شادی کرکٹرزکیلیے مفید یا نقصان دہ، دلچسپ حقائق ظاہر

دھونی کی ٹیسٹ اوسط میں کمی ہوئی،نوجوت سدھو اور ڈیوڈ وارنر کو فائدہ پہنچا ۔ فوٹو : فائل
نئی دہلی: شادی کرکٹرزکیلیے مفید یا نقصان دہ ہے،اس حوالے سے دلچسپ حقائق سامنے آ گئے،بھارتی اسٹار ویرات کوہلی کی فلمی اداکارہ انوشکا شرما سے دوستی ختم ہونے کے بعد پرفارمنس میں نمایاں بہتری پر بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ کرکٹرز کی بیگمات اور خواتین دوست ان کی پرفارمنس پر اثر انداز ہوتی ہیں، ایک بھارتی براڈ کاسٹر نے ٹی وی شو میں اس حوالے سے دلچسپ تقابلی جائزہ پیش کیا۔
جس میں ماضی اور حال کے کئی معروف پلیئرز کی شادی سے قبل اور بعد کی ٹیسٹ اوسط کا موازنہ کیا گیا، شائقین کی جانب سے اکثر کھلاڑیوں کی بیگمات اور خواتین دوستوں کو ان کی آن فیلڈ خراب پرفارمنس پر مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، پیش کیے گئے جائزے میں ڈیوڈ وارنر اور نوجوت سنگھ سدھو کی پرفارمنس میں نمایاں بہتری دکھائی دی، سابق پاکستانی کپتان رمیز راجہ کی کارکردگی میں کچھ خاص فرق نہیں پڑا، سدھو شادی سے قبل 13 کی اوسط سے کھیلتے تھے جبکہ بعد میں یہ بڑھ کر43.32 ہوگئی، اسی طرح وارنر 48.20 سے 54.92 پر پہنچ گئے۔
بھارتی ون ڈے کپتان دھونی کے ساتھ برعکس ہوا، وہ شادی سے قبل 42.59 کی اوسط سے کھیلتے تھے جبکہ ساکشی کو جیون ساتھی بنانے کے بعد یہ اوسط 34.47 ہوگئی، رمیز راجہ پہلے 32.28 پر تھے اور بعد میں 31.62 پر آگئے، شین واٹسن بھی 39.43 سے 33.52 پر چلے گئے ، ڈی ویلیئرز 50.50 سے 50.29 پر گئے، فاف ڈوپلیسی کے شماریات 58.50 سے کم ہوکر35.38 ہوگئے۔
دوسری جانب بھارتی اوپنر سریش رائنا نے کہا ہے کہ شادی کے بعد بطور انسان وہ خود کو زیادہ بہتر خیال کرتے ہیں، انھوں نے گذشتہ برس پریانکا چوہدری سے بیاہ رچایا تھا۔وہ آئی پی ایل کے موجودہ سیزن میں گجرات لائنز کی قیادت بھی کررہے ہیں، انھوں نے کہا کہ زندگی کے نئے سفر پر میری اہلیہ انتہائی مددگار ثابت ہوئی ہیں، وہ میرے ٹیم پلیئرز کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے پر قطعی خفا نہیں ہوتیں بلکہ اس معاملے میں میری حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔

مالک پر پابندی اٹھائی جائے: خیبر پختونخوا کا مطالبہ

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان مشتاق غنی نے کہا ہے کہ انھوں نے صوبے میں مالک فلم پر کوئی پابندی عائد نہیں کی اور وہ وفاقی حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ پابندی فوری طور پر اٹھائی جائے۔
٭ ملک بھر میں فلم مالک پر پابندی
مشتاق احمد غنی نے بی بی سی سے ٹیلیفون پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جیسے سندھ حکومت نے پاکستانی فلم مالک پر پابندی عائد کی ہے اس طرز پر خیبر پختونخوا حکومت نے کوئی پابندی عائد نہیں کی بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت بھی یہ پابندی نہ لگائے۔
انھوں نے کہا کہ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سیاست دانوں کی بد عنوانی کے موضوع پر بننے والی اس فلم کو دیکھ سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آزادیِ اظہار رائے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
اداکار اور سابق کسٹمز افسر عاشر عظیم کی اس فلم کو تقریباً تین ہفتے قبل نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا، تاہم منگل کو حکومت سندھ کے سینسر بورڈ نےاس فلم پر ایک قابلِ اعتراض جملے کی وجہ سے پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا، جسے کچھ گھنٹے بعد ہی واپس لے لیا گیا۔
اس کے بعد وفاقی حکومت کے سینسر بورڈ نے اس فلم پر پابندی عائد کر دی۔
مشتاق احمد غنی نے کہا کہ ملک میں پاناما لیکس سے سیاست دانوں کی بدعنوانی منظر عام پر آگئی ہے اس لیے نواز لیگ نہیں چاہتی کہ لوگ یہ فلم دیکھیں۔
مشتاق احمد غنی کے مطابق ان کے قائد عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور یہ ان کی جماعت کا مشن ہے کہ ملک سے بدعنوانی کو ختم کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ وہ وفاقی حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ فلم پر عائد پابندی فوری طور ہٹا لی جائے۔
ان سے جب پوچھا کہ اطلاعات کے مطابق اس فلم کے کرداروں سے صوبائی تعصب کا گمان ہوتا ہے تو انھوں نے کہا کہ اس کے لیے کمیٹی ہے جو یہ فلم دیکھ کر فیصلہ کر سکتی ہے کہ آیا اس میں صوبائی تعصب کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی ہے یا نہیں۔ تاہم ان کی اطلاعات کے مطابق اس میں ایسے کوئی کردار نہیں ہیں۔

Pakistan Election 2018 View political party candidates, results

https://www.geo.tv/election/candidates