پاکستان میں حزب اختلاف کی دو بڑی
جماعتوں کے رہنماوں نےکہا ہے کہ تمام اپوزیشن اس بات پر متفق ہے کہ جن
لوگوں کے خلاف تحقیقات ہونی ہیں وہ خود ضابطہ کار طے نہیں کر سکتے۔
٭ضابط کار تبدیل نہیں ہو گا: وفاقی کابینہ کا فیصلہ٭’سب کا احتساب ہو لیکن آغاز وزیر اعظم سے ہو‘
وفاقی کابینہ کی طرف سے پاناما لیکس کے بعد وزیر اعظم پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن کے ضابطہ کار کی منظوری دینے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ان رہنماؤں نے کہا کہ اگر حزب اختلاف کا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو پھر عوامی احتجاج ہو گا۔
بی بی سی اردو سروس کے ریڈیو پروگرام سیربین میں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ قوم کے لیے وہی ضابطہ کار قابل قبول ہو گا جو حزب اختلاف کی جماعتوں کی مشاورت سے بنایا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود نے کہا کہ اپوزیشن کا موقف اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ جن لوگوں کو الزامات کا سامنا ہے وہ ضابطہ کار نہیں بنا سکتے۔
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ تحقیقاتی کمیشن کے ’ٹی او آر‘ ساری سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے بنائے جانے چاہیں۔
ضابطہ کار کے بارے میں وفاقی کابینہ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں ریٹائرڈ جج سے تحقیقات کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جب اپوزیشن کی طرف سے دباؤ پڑا تو وہ سپریم کورٹ کے جج کے تحت تحقیقاتی کمیشن بنانے پر تیار ہو گئے۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت پر جب اور دباؤ پڑے گا تو وہ ضابطہ کار تبدیل کرنے پر تیار ہو جائے گی۔
بدعنوانی کے الزامات پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شفقت محمود کا کہنا تھا کہ آف شور کمپنیاں جب بنائی گئیں اس وقت وزیر اعظم کے دونوں صاحبزادوں کی عمر بہت کم تھی اور وہ اپنے والد کی کفالت میں تھے۔
انھوں نے کہا کہ یہ کمپنیاں بنانے کے لیے پیسہ کہاں سے بھیجا گیا۔ ان کے خیال میں تحقیقات کا محور اور مرکزی نکتہ یہ ہی ہونا چاہیے۔
سعید غنی نے کہا کہ جو لوگ شریف خاندان کے مالی معاملات کے بارے میں جانتے ہیں ان کو رتی برابر بھی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ معاملات شفاف نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ بحران پاناما لیکس کے علاوہ وزیر اعظم کے خاندان کے افراد کے اپنے بیانات میں تضاد سے شروع ہوا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں شفقت محمود نے کہا کہ حکومت نے جو ٹی او آرز بنائے ہیں ان میں قرضوں اور مختلف دیگر مسائل شامل کر کے اس کا دائر کار بہت وسیع کر دیا گیا ہے اور عام خیال یہ ہی ہے کہ اس کے نتائج آئندہ دس سال تک نہیں نکلیں گے۔
حکومت پر دباؤ ڈالنے کے حوالے سے شفقت محمود نے کہا کہ ان کی جماعت پہلے ہی مہم شروع کر چکی ہے اور اتوار کو اس سلسلے میں لاہور میں جلسہ کرنے والی ہے۔
دوسری طرف سیعد غنی کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے دو مئی کو اپوزیشن جماعتوں کا ایک اجلاس طلب کر رکھا ہے جس میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ قوم کے سامنے متبادل ضابطہ کار پیش کیا جائے۔
انھوں نے کہا پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ کوئی فیصلہ تنہا نہ کیا جائے اور اپوزیشن کی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ایوان کے اندر اور سڑکوں پر بھی احتجاج کیا جا سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment