وزیراعظم کو جیل بھیجنے والوں کو کہیں اور نہیں سسرال یا تل ابیب میں پناہ ملے گی، سربراہ جے یو آئی (ف). فوٹو:فائل
بنوں: جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا
فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ چوہوں سے ڈرنے والے پنجاب کے شیروں پر ہاتھ
ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، وزیراعظم کو جیل بھیجنے والوں کو کہیں اور نہیں
سسرال یا تل ابیب میں پناہ ملے گی۔
بنوں میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا
کہ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے والے خود چوہوں سے ڈرتے ہیں اوروہ پنجاب کے
شیروں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں، آف شور کمپنیاں توعمران خان کی بھی
ہیں اگر احتساب ہوا تو پھر سب کا ہوگا اور اگر وزیر اعظم نے استعفیٰ دیا
تو وہ اپنے گھر یا جیل جائیں گے لیکن عمران خان کو پورے ملک میں کہیں بھی
جگہ نہیں ملے گی انہیں اپنے سسرال یا تل ابیب میں پناہ ملے گی۔ انہوں نے
کہا کہ خیبرپختون خوا میں مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والے ہی صوبے کی ترقی کی
راہ میں رکاوٹ ہیں اور صوبے کو تاریکیوں کی جانب دھکیل رہے ہیں، ایسے
لوگ ترقی کے نام سے نابلد ہیں لیکن مسند اقتدار پر ہونے کے باعث ان کی ذمہ
داری بنتی ہے کہ وہ صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جب انتخابات ہوئے تو ایک ذمہ دار وفد نے
مجھے کہا کہ پختونوں میں تہذیب کی جڑیں بہت گہری ہیں اوران کو اکھاڑنے کے
لئےعمران خان سے بہتر شخص کوئی اور نہیں مل سکتا، عمران خان کے جلسوں میں
اخلاقی اقدار کو پامال کیا جاتا ہے اور پختونوں کی عزت کے ساتھ کھیلا جارہا
ہے جب کہ خیبر پختونخوا کی ذمہ داری جن کے سپرد کی تھی انہوں نے صوبے کو
دوبارہ جہالت کی تاریکیوں کی طرف دھکیل دیا اور غریبوں کے پیسے کو برباد
کردیا ہے۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے کہا جارہا ہے
کہ اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، میں ان سے
کہتا ہوں کہ نشے میں دھت اور سوئے ہوئے لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا،
ہمیں وزیراعظم پرمکمل اعتماد ہے ان کے پسماندہ علاقے میں آنے سے ترقی کا
آغاز ہوگیا ہے اور وزیراعظم کی قیادت میں ترقی کا یہ سفر جاری رہے گا۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی پر نظر
رکھنے والے امریکی کمیشن يو ایس سی آئی آر ایف کی تازہ رپورٹ کے مطابق سنہ
2015 میں انڈیا میں عدم برداشت اور مذہبی آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی کے
معاملات میں اضافہ ہوا ہے۔
اس رپورٹ کی اہم باتیں درج ذیل ہیں:
٭ اقلیتوں کو اکثریتی ہندو تنظیموں کے ہاتھوں دھمکی، ہراساں کیے جانے اور تشدد کے بڑھتے واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
٭
حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ان تنظیموں کی خاموش حمایت کرتے ہیں
اور ماحول کو زیادہ خراب کرنے کے لیے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے والی زبان
استعمال کرتے ہیں۔
٭ پولیس کے متعصب رویے اور عدالت سے بھی جلد انصاف نہ ملنے کی وجہ سے اقلیتی برادری کے لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔
٭
گذشتہ سال مسلمانوں کو بڑھتے ظلم و ستم، تشدد اور اشتعال انگیز تقاریر کا
شکار ہونا پڑا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج جیسے بی جے پی کے
ممبران پارلیمنٹ نے مسلمانوں کی آبادی کو روکنے کے لیے قانون بنانے کا
مطالبہ کیا ہے۔ Image copyrightAFPImage caption
رپورٹ کے مطابق مسلمان سمیت اقلیتی برادریوں میں خوف و ہراس دیکھا جا رہا ہے
فروری سنہ 2015 میں سنگھ پریوار کے ایک اجلاس کے
ویڈیوز میں بی جے پی کے کئی قومی لیڈر سٹیج پر بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس
اجلاس میں کئی لیڈر مسلمانوں کو ’شیطان‘ کہتے ہوئے اور انھیں برباد کرنے
کی دھمکی دیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
٭ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ سماجی دباؤ اور پولیس کے رویے کی وجہ سے اس طرح کے واقعات کی باضابطہ طور پر کم ہی شکایت کرتے ہیں۔
٭ ان کے مطابق پولیس شدت پسندی کے الزام میں مسلمان لڑکوں کو گرفتار کرتی ہے اور بغیر مقدمے کے سالوں تک انھیں جیل میں رکھتی ہے۔
٭
گائے ذبح کرنے پر پابندی کی وجہ سے مسلمانوں اور دلتوں کا اقتصادی نقصان
تو ہو ہی رہا ہے، اس کے علاوہ اس قانون کی مبینہ خلاف ورزی کا معاملہ بنا
کر مسلمانوں کو پریشان کیا جا رہا ہے اور ہندوؤں کو تشدد کے لیے اکسایا جا
رہا ہے۔
٭ سنہ 2015 میں عیسائیوں پر تشدد کے 365 معاملے سامنے آئے
جبکہ سنہ 2014 میں یہ تعداد 120 تھی۔ عیسائی کمیونٹی اس کے لیے ہندو
جماعتوں کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے جنھیں بی جے پی حکومت اور پارٹی کی حمایت
حاصل ہے۔ Image copyrightAPImage caption
رپورٹ میں پولیس کو متعصب بتایا گيا ہے
تبدیلیِ مذہب کے قانون کی وجہ سے مسلمانوں اور
عیسائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دسمبرسنہ 2014 میں ہندو تنظیموں
نے گھر واپسی کے پروگرام کا اعلان کیا تھا جس کے تحت ہزاروں مسلمانوں اور
عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ لیکن اس معاملے پر
اندرون و بیرونِ ملک ہنگاموں کے بعد آر ایس ایس نے اسے ملتوی کر دیا۔ سنہ
2015 میں بی جے پی کے صدر امت شاہ نے تبدیلیِ مذہب پر پابندی لگانے کے لیے
ملک بھر میں قانون بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
٭ اپریل سنہ 2015 میں
ہندوستان کی وزارت داخلہ نے تقریباً نو ہزار غیر سرکاری اداروں کا لائسنس
منسوخ کر دیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان اداروں نے فیرا (فارن ایکسچینچ
ریگولیٹری ایکٹ) قانون کی خلاف ورزی کی تھی جس کی وجہ سے ان پر کارروائی کی
گئی تھی لیکن ان اداروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کرنے
کی وجہ سے انھیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
٭ وزارت داخلہ کے مطابق سنہ
2015 میں گذشتہ سال (2014) کے مقابلے میں فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں
17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں کا الزام ہے کہ مذہب کی بنیاد پر انھیں
تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن حکومت اسے دو دھڑوں کے درمیان تشدد کی
واردات بتاتی ہے۔
مارچ سنہ 2016 میں ہندوستان کی حکومت نے يو ایس سی آئی آر ایف کی ٹیم کو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ Image copyrightReutersImage caption
شدت پسندی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے
يو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی رپورٹ میں امریکی حکومت کو کچھ تجاویز بھی دی ہیں ان میں مندرجہ اہم ہیں:
انڈیا کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات میں مذہبی آزادی کا مسئلہ بھی اٹھایا جائے۔
انڈیا میں واقع امریکی سفارت خانے کی
توجہ ان امور کی جانب مرکوز کی جائے۔ سفارت خانے کے حکام کو اس طرح کے
واقعات کا جائزہ لینے کے لیے جائے وقوع کا دورہ کرنا چاہیے اور مذہبی
رہنماؤں، مقامی حکام سے ملاقات کرنی چاہیے۔
حکومت ہند پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ يو ایس سی آئی آر ایف کی ٹیم کو بھارت کا دورہ کرنے کی اجازت دے۔
حکومت ہند سے کہنا چاہیے کہ وہ اپنی
پولیس اور عدالتی حکام کو انسانی حقوق کے معاملے کی اور تربیت دے، تبدیلیِ
مذہب قانون میں ترمیم کی جائے اور حکومت ان افسران اور رہنماؤں کو روکے جو
اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہیں۔
Image copyrightBBC World ServiceImage caption
انڈیا میں مسیحی برادری کے خلاف بھی تشدد میں اضافہ ہوا ہے
يو ایس سی آئی آر ایف امریکہ کا آزاد کمیشن ہے جس کا
کام دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے حقوق پر نظر رکھنا ہے۔ ان تجاویز پر عمل
کرنے کے لیے امریکی وزارت خارجہ پابند نہیں ہے۔
انڈیا میں مذہبی
آزادی کی بنیاد پر کمیشن نے اس سال بھی ہندوستان کو درجہ دوم میں رکھا ہے۔
اس زمرے میں بھارت کے ساتھ افغانستان، کیوبا، انڈونیشیا، آذربائیجان،
قزاقستان، لاؤس، ملائیشیا، روس اور ترکی شامل ہیں۔
اس کے ساتھ کمیشن
کا کہنا ہے کہ وہ رواں سال بھی انڈیا پر سخت نظر رکھے گا تاکہ وہ فیصلہ کر
سکے کہ وہ بھارت کو سخت تشویش والے ممالک کی فہرست میں رکھنے کے لیے امریکی
وزارت خارجہ کو سفارشات دے یا نہیں۔
کمیشن نے پاکستان سمیت آٹھ ممالک کو اس زمرے میں رکھنے کی سفارش کی ہے۔
خطے میں اسلحہ کی دوڑ نہیں چاہتے لیکن بھارت کی وجہ سے مجبوری میں جواب دیتے ہیں، مشیر خارجہ۔ فوٹو:فائل
اسلام آباد: وزیراعظم کے
مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے حوالے سے کہا ہے
کہ امریکا کا کوئی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا جب کہ شکیل آفریدی امریکا
کے لئے ہیرو ہو سکتا ہے لیکن ہمارا ملزم ہے۔
مشیرخارجہ امورسرتاج عزیزنے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرشکیل
آفریدی کی سزا کا فیصلہ عدالتی ہے اور یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اس
لئے اس پر امریکا کا کوئی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا جب کہ شکیل آفریدی
امریکا کے لئے تو ہیرو ہوسکتا ہے لیکن پاکستان کی نظر میں وہ ایک ملزم ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا ایف 16 پاکستان کو بیچنے کی منظوری دے چکا ہے مسئلہ
صرف فنانسنگ کا آ رہا ہے، کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقم کے حوالے سے کچھ تکنیکی
مسائل ہیں، اس رقم سے ایف 16 نہیں خرید سکتے، متبادل رقم کا انتظام کرنا
پڑے گا جب کہ ایف 16 طیارہ خریدنے کا متبادل انتظام نہ ہوا تو کہیں اورسے
خرید سکتے ہیں، پاکستان اگراسلحہ نہ خریدے تو خطے میں عدم توازن شروع
ہوسکتا ہے، انسداد دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایف 16 طیاروں کی ضرورت ہے۔
سرتاج عزیزنے بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کہا کہ بھارت سے مذاکرات
کا عمل بحال ہونے کے خواہش مند ہیں، آئندہ چند ہفتوں میں پاک بھارت
مذاکرات کا امکان ہے، بھارت کی طرف سے جوہری آبدوز کا حصول اوراسلحہ کی
خریداری خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہے، خطے میں اسلحہ کی دوڑ نہیں چاہتے
لیکن بھارت کی وجہ سے مجبوری میں جواب دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا
بھارت سول جوہری معاہدے پر تشویش ہے، پاکستان جنوبی اشیاء کو نیوکلیئر فری
کرنے کے حق میں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ قطر سے طالبان کے وفد کی پاکستان
آمد کی تصدیق کرتے ہیں جووضاحتی رابطہ ہے جب کہ افغانستان نے پاکستان کو
کسی قسم کی دھمکی نہیں دی بلکہ مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی افریقی ساحل پر واقع خلیجِ گنی جہاز رانوں کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک خطہ بن گئی ہے۔
رپورٹ
کے مطابق اس علاقے میں بحری قزاقوں کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے
اور ساتھ ہی ساتھ ان حملوں میں برتا جانے والا تشدد بھی بڑھ گیا ہے۔
یہ رپورٹ امریکی ادارے ’اوشیئنز بیانڈ پائریسی‘ (قزاقی سے پاک سمندر) نے جاری کی ہے۔
رپورٹ
کے مطابق قزاقوں نے اغوا برائے تاوان کی کارروائیوں میں بھی اضافہ کر دیا
ہے۔ اس سے قبل ان کی زیادہ تر توجہ آئل ٹینکروں پر ہوا کرتی تھی، لیکن تیل
کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے انھوں نے دوسرے طریقے تلاش کرنا شروع کر دیے
ہیں۔
رپورٹ کے مطابق نائجر ڈیلٹا میں اس سال اب تک اغوا کے کم از کم
16 واقعات پیش آ چکے ہیں۔ قزاق اب زیادہ پرتشدد ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں
اور وہ اکثر اوقات جہاز پر سوار ہونے سے قبل جہاز پر فائرنگ شروع کر دیتے
ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قزاقوں کے علاقۂ واردات میں بھی توسیع
ہو رہی ہے اور وہ 50 سے لے کر 100 ناٹیکل میلوں تک کارروائیاں کر رہے ہیں۔
اس
سے قبل صومالیہ کے بحری قزاقوں نے افریقہ کے مشرقی ساحل پر خاصی تباہی
مچائی تھی لیکن ایک بین الاقوامی بحریہ کے وجود میں آنے کے بعد ان کی
کارروائیوں میں بڑی حد تک کمی واقع ہو گئی ہے۔
یاد رہے کہ سنہ 2015 میں صومالی قزاق کوئی بھی بحری جہاز ہائی جیک کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
امریکہ کے دفتر خارجہ نے بی بی سی
اردو کی اس رپورٹ کی رسمی طور پر تصديق کر دی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ
کانگریس نے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی خریداری کے لیے دی جانے والی مالی
امداد روک دی ہے۔
سوموار کو امریکی دفتر خارجہ میں پریس بریفنگ کے
دوران ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ کانگریس نے ایف 16 طیاے فروخت کرنے
کی منظوری دے دی تھی لیکن کچھ اہم ارکین نے اس کے لیے امریکی مالی مدد جاری
کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
*
ایف سولہ طیاروں کی خریداری ہمیشہ دشوار
*
ایف 16 طیاروں کی فنڈنگ پر ’بات چیت ختم نہیں ہوئی‘
کربی کا
کہنا تھا، ’کانگریس کی مخالفت کی وجہ سے ہم نے پاکستان کو اطلاع دے دی ہے
کہ یہ طیارے خریدنے کے لیے انھیں اپنے قومی فنڈ کا استعمال کرنا ہوگا۔‘
انھوں
نے کہا کہ جس طرح کی شرائط کانگریس نے لگائی ہیں، دفترخارجہ اصولاً ان کے
خلاف ہے کیونکہ اس سے صدر اور وزیر خارجہ دونوں ہی کے لیے ایسی خارجہ
پالیسی چلانا مشکل ہو جاتا ہے جو امریکی مفاد میں ہو۔
یاد رہے کہ
گذشتہ ہفتے بی بی سی کی ایک رپورٹ میں دفترِ خارجہ کے ایک اہلکار کے حوالے
سے بتایا گیا تھا کہ امریکہ نے سینیٹ کی کیمٹی کی ہدایت پر پاکستان کو آٹھ
ایف -16 طیارے خریدنے کے لیے دی جانے والی مالی امداد روک لی ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ اس فیصلے کے پاکستان کا امریکہ سے آٹھ ایف -16 طیارے خریدنے کا منصوبہ تعطل کا شکار ہو جائے گا۔
امریکی
دفترِ ِخارجہ کے اہلکار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا تھا کہ
امریکی انتظامیہ نے یہ فیصلہ سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین
سینیٹر باب كاركر کے حکم پر کیا ہے کیونکہ کانگریس کے پاس غیر ملکی فوجی
امداد کے لیے مختص رقم جاری کرنے کا اختیار ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ
کے افسر کا کہنا تھا کہ تاحال تو یہ رقم پاکستان کو نہیں دیا جا سکتی لیکن
اگر کانگریس اپنا ذہن تبدیل کر لیتی ہے تو اسے جاری کیا جا سکتا ہے۔ Image caption
امورِ خارجہ کے مشیر طارق فاطمی نے بی بی سی سے بات
کرتے ہوئے کہا تھا کہ کانگریس کو رضامند کرنا اوباما انتظامیہ کی ذمہ داری
ہے اور یہ سودا ابھی ختم نہیں ہوا ہے
اس معاملے پر ردِ عمل میں پاکستان کی موجودہ حکومت کے
امورِ خارجہ کے مشیر طارق فاطمی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ
کانگریس کو رضامند کرنا اوباما انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور یہ سودا ابھی
ختم نہیں ہوا ہے۔
طارق فاطمی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکی
کانگریس میں فارن ملٹری فنڈنگ یا بیرونی ممالک کو فوجی مالی امداد کے خلاف
جذبات پائے جاتے ہیں لیکن امریکہ انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کی فوجی امداد
کی پیش کش اپنی جگہ موجود ہے۔
انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف
جاری آپریشن نہ صرف پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے بلکہ اس کا فائدہ امریکہ
اور افغانستان کے علاوہ خطے کے دوسرے ملکوں کو بھی پہنچ رہا ہے۔
اس
کے علاوہ اس سال کے لیے پاکستان کو دی جانے والی 74 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی
فوجی امداد کا جو بجٹ کانگریس کے سامنے پیش کیا تھا اس کی منظوری کا عمل
بھی فی الحال روک دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ اس معاملے پر کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرتی رہے گی۔
امریکی
محکمہ دفاع کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق ان آٹھ طیاروں اور اس سے
منسلک دوسرے آلات کی قیمت تقریبا 70 کروڑ ڈالر ہے۔ اوباما انتظامیہ کا کہنا
ہے کہ پاکستان کو یہ طیارے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے فروخت کیے جا رہے
تھے۔
امریکی کانگریس میں بہت سے ارکان نے اس پر اعتراض کیا اور کہا
تھا کہ ان کا استعمال صرف بھارت کے خلاف ہو سکتا ہے۔ بھارت نے بھی اس فروخت
کے خلاف اعتراض کیا تھا۔
انتخابات میں سنہرے خواب دکھا کرخیبرپختونخوا کے لوگوں کو پھنسایا گیا، وزیراعظم کا بنوں میں جلسے سے خطاب۔ فوٹو:ایکسپریس نیوز
بنوں: وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ مخالفین کو نہیں پتا کہ ان کا کس سے واسطہ پڑ گیا ہے اور ہم گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے والے نہیں۔
بنوں میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے اپوزیشن کو شدید
تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میرے خلاف ایک پائی کی کرپشن ثابت
ہوجائے تواستعفیٰ دے دوں گا، آپ کے کہنے پر گھر چلے جائیں یہ منہ اور مسور
کی دال، عوام کا مینڈیٹ لے کرآئے ہیں، گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے والے نہیں،
تمام معاملات سپریم کورٹ پر چھوڑ دیئے اوراگر ایک پائی کی بھی کرپشن ثابت
ہوگئی تو ایک منٹ میں گھر چلا جاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں سنہرے
خواب دکھا کرخیبرپختونخوا کے لوگوں کو پھنسایا گیا، نیا خیبرپختونخوا
دیکھنا چاہتا تھا لیکن جہاں جاتا ہوں وہیں پرانی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، پرانے
اسکول، پرانے اسپتال دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے، ہم عوام کی خدمت دل و جان
سے کر رہے ہیں لیکن آج پھرایسےالزامات لگائےجارہے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی
تعلق نہیں۔
وزیراعظم نے بنوں میں 5 بڑی شاہراہوں کا افتتاح کرنے اور 5 یونین
کونسلز میں گیس کی فراہمی کا سنگ بنیاد رکھنے کے علاوہ لکی مروت میں
یونیورسٹی کے قیام، بنوں اکنامک زون، بنوں ایئرپورٹ کو انٹرنیشنل ایئرپورٹ
کا درجہ دینے کا بھی اعلان کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے صوبائی حکومت پر
تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے کہا کہ نیا پاکستان بنانے والوں سن لو، تم کیا
کررہے ہو اور ہم کیا کر رہے ہیں، یہ ہے نیا پاکستان، پرانے پاکستان والے
پشاورمیں بیٹھے ہیں اور دھرنےدے رہے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ لوگ
دھاندلی کا رونا روتے رہے لیکن سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ
انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی، سپریم کورٹ کا فیصلہ دھاندلی کا
شورمچانے والوں کے منہ پرطماچہ تھا جس پر انہیں قوم کا وقت ضائع کرنے پر
معافی مانگنی چاہیئے۔
ویزہ مسترد ہونا تان موگل کے لیے کسی داغ سے کم نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کی زندگی میں سب سے بے عزت لمحہ تھا۔
استنبول
کے صحافی تان موگل کو 2010 میں جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں ان کے پسندیدہ
فٹبال کلب سینٹ پاؤلی کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا
تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں دنیا بھر کا سفر کر چکا ہوں اور ان کا
کہنا تھا کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ انھوں نے میری بات کا یقین نہیں کیا۔
میں جرمنی میں صرف دس دن کے لیے جانا چاہتا تھا۔ یہ انسانیت کے خلاف ہے‘۔
ترکی
کے تمام شہریوں کی طرح انھیں بھی ویزا کی درخواست کے لیے تمام ضابطے پورے
کرنے پڑے۔ قونصل خانے کے باہر لائن لگا کر انھوں نے تمام دستاویزات اور فیس
جمع کرائی۔ انھیں لگا ان کی درخواست منظور ہو جائے گی۔
لیکن ان کی فلائٹ سے چار گھنٹے پہلے ہی ان کی درخواست نامنظور کر دی گئی۔
تان
موگل کا کہنا ہے ’میں نے لوگوں کو خوفزدہ ہوتے دیکھا کہ کہیں ان کی
درخواست نامنظور نہ ہو جائے۔ لیکن ہم دنیا دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ ہمارا
حق ہے۔‘ Image copyrightAFPImage caption
ہزاروں پناہ گزین ترکی کے راستے یونان جانے کی کوشش کرتے ہیں
ہو سکتا ہے کہ ترکی کے 79 ملین عوام کو یہ حق جلد ہی حاصل ہو جائے۔
بدھ
کو یورپی کمیشن رپورٹ جمع کرائے گا کہ آیا ترکی اس معیار پر پورا اترتا ہے
یا نہیں جس کے تحت ترکی کے شہریوں کے لیے شینگن معاہدے میں شامل ممالک میں
بغیر ویزے سفر کی مشروط اجازت دے جائے گی۔ ان ممالک میں برطانیہ اور
آئرلینڈ کے علاوہ دیگر یورپی ممالک شامل ہیں۔
یہ اقدام اُس معاہدے کا حصہ ہے جس کے تحت ترکی یونان جانے والے پناہ گزینوں کو واپس بلائے گا۔
یورپی
یونین اور ترکی کے درمیان معاہدے کے تحت 20 مارچ تک ترکی کے راستے غیر
قانونی طریقے سے یونان پہنچنے والے اُن پناہ گزینوں کو واپس ترکی بھیج دیا
جائے گا جنھوں نے یا تو پناہ کے لیے درخواست نہیں دی یا ان کی درخواست
مسترد کر دی گئی ہے۔
اگر یورپی کمیشن ترکی کے لیے ویزہ ختم کرنے کے
اس معاہدے کو تسلیم کرتا ہے تو اسے یورپی پارلیمان اور کونسل آف منسٹرز کی
منظوری حاصل کرنی ہوگی۔