پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کے علاقے خانپور میں جہاں گندھارا تہذیب سے منسلک کئی اہم مقامات ہیں، ان میں بھملا بھی شامل ہے۔
یہ دریائے ہارو کے ساتھ ایک پہاڑی پر موجود ہے۔ اس پہاڑی پر صلیبی شکل کا ایک بڑا سٹوپا، خانقاہ اور عبادت گاہیں ہیں۔ یہ پر سکون احاطہ تین اطراف سے پہاڑیوں میں گھرا ہوا ہے اور ایک طرف دریائے ہارو کا نظارہ ہے۔
اسی پہاڑی پر نیلے رنگ کی چھت کے نیچے لگتا ہے کہ بظاہر اینٹوں کا ایک ڈھیر جمع ہے۔ لیکن یہاں نایاب خوابیدہ بدھا ہے جو لگ بھگ 18 سو سال پرانا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ خطے کا سب سے قدیم بدھا ہو۔
عبدالحمید ہزارہ یونیورسٹی کے ماہرِ آثارِ قدیمہ ہیں اور گذشتہ تین سال سے اس مقام پر کھدائی کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں سے نکالی گئی مورتیوں کی وسکانسن یونیورسٹی کی مدد سے کی گئی کاربن ڈیٹنگ سے معلوم ہوا کہ یہ خوابیدہ بدھا تیسری صدی کا ہے۔
Image captionصرف مقامات کی کھدائی اور بحالی مسئلہ نہیں ہے، جو مقامات دریافت ہوئے ہیں، ان کی لوٹ مار پر بھی قابو پانا مشکل کام ہے
تاہم اس منظر اور بدھا کی حالت بہت خراب پائی گئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں: ’اس کو دو منزلہ عمارت میں محفوظ کیا گیا تھا، جس کی چھت خوابیدہ مجسمے کے اوپر گر گئی تھی۔ اس کی ایک ٹانگ اور جسم کے اور ٹکرے زمین پر ملے تھے۔‘
خوابیدہ بدھا کے جگہ کی کھدائی ابھی جاری ہے لیکن سٹوپا، خانقاہ اور عبادت گاہ میں نصب کچھ مورتیوں کو اسی مقام پر بحال کر لیا گیا ہے۔ بھملا کے مقام کو سنہ 1930 اور سنہ 1931 میں برطانوی ماہرِ آثارِ قدیمہ سر جان مارشل نے دریافت کیا تھا اور یہ اقوامِ متحدہ کے ثقافتی ورثے کے ادارے یعنی یونیسکو کی اس فہرست میں شامل ہے جس میں ایسے مقامات کو عالمی سطح پر تحفظ دیا گیا ہے۔
بھملا کا مقام اس لیے بھی اہم سمجھا جاتا ہے کیونکہ شمال سے جنوب جانے والے مسافروں اور بدھ بھکشوؤں کے لیے یہ پہلا پڑاؤ تھا۔ تاہم، خوابیدہ بدھا کی دریافت نے اس مقام کو بے مثال بنا دیا ہے۔
Image captionماہرِ آثارِ قدیمہ عبدالحمید گذشتہ تین سال سے اس مقام پر کھدائی کی نگرانی کر رہے ہیں
ماہرِ آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ ٹیکسلا اور آس پاس کے علاقے میں گندھارا تہذیب سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مقامات دریافت ہی نہیں ہوئے اور اس کی ایک وجہ وسائل کی کمی ہے۔
صوبے کے محکمہِ آثارِ قدیمہ نے اسی لیے حال ہی میں ان سنگ تراشوں کی مدد لینا شروع کی ہے جو مجسموں کی نقل تیار کرتے ہیں کیونکہ شعبہِ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی پاکستان میں قلت ہے۔ ان میں سے ایک افتخار احمد ہیں، جن کے دادا نے یہ کام برطانوی ماہرِ آثارِ قدیمہ کے ساتھ مزدور کے طور پر کام کر کے سیکھا۔ افتخار احمد نے بتایا کہ ان کے دادا نے پھر خود اپنے طور پر مورتیاں بنانے کی مشق کی۔
افتخار احمد کا کہنا ہے کہ انھوں نے کئی تاریخی مقامات پر بحالی کا کام کیا ہے لیکن خوابیدہ بدھا نہ صرف پاکستان میں اس قسم کا سب سے بڑا مجسمہ ہے، اس کا پتھر بھی غیر معمولی ہے۔
Image captionگندھارا فن کے محققین اور صاحبِ ذوق کے لیے بھملا کے مقام سے اہم نوادارات ملے ہیں
وہ بتاتے ہیں: ’ٹیرا کوٹا اور سٹکو کے بہت مجسمے کھودے گئے ہیں لیکن کنجور پتھر میں یہ آج تک نہیں نکلا۔ اس کو مکمل طور پر بحال کرنے کے لیے کم سے کم آٹھ دس سنگ تراش درکار ہوں گے جو اس کام کو جانتے ہوں جو دو تین ماہ میں کام مکمل کر سکیں گے۔ اور پھر کچھ پتھر تو مقام پر محفوظ ہیں، کچھ خریدنا پڑیں گے۔‘
صرف مقامات کی کھدائی اور بحالی مسئلہ نہیں ہے، جو مقامات دریافت ہوئے ہیں، ان کی لوٹ مار پر بھی قابو پانا مشکل کام ہے ۔ہزارہ یونیورسٹی کے عبدالحمید کا کہنا ہے کہ ’بھملا کے مقام کو لوٹا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، اب بھی کئی تاریخی مقامات سے مجسموں اور دیگر نوادرات کی چوری جاری ہے۔ یہ پھر پاکستان اور پاکستان سے باہر غیر قانونی طور پر بکتے ہیں۔‘
گندھارا فن کے محققین اور صاحبِ ذوق کے لیے بھملا کے مقام سے اہم نوادارات تو ملے ہیں لیکن اگلہ مرحلہ ان کو محفوظ اور بحال کرنے کا ہے۔ اور اس کے لیے محکمہ آثارِ قدیمہ مزید وسائل کی تلاش میں ہے، اس سے پہلے کہ یہ قیمتی ورثہ ہمیشہ کے لیے مسمار نہ ہو جائے۔
بھاری بھرکم 300 پاؤنڈ وزنی پالتو ریچھ خاندان کے فرد کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ اس کی عمر 23 سال ہے۔ فوٹو بورڈپانڈا
روس: روسی خاندان بھاری بھرکم 300 پاؤنڈ وزنی پالتو ریچھ خاندان کے فرد کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ اس کی عمر 23 سال ہے۔
اس ریچھ کا نام اسٹیپین ہے جسے روسی خاندان نے اس وقت گود لیا تھا جب اس کی عمر صرف 3 ماہ تھی۔ دراصل اسٹیفن ایک لاوارث ریچھ ہے جسے شکاریوں نے 23 سال پہلے ایک جنگل میں دیکھا تھا۔ اسٹیپین بالکل اکیلا اور بھوکا پیاسا نقاہت کی حالت میں جنگل کے دھکے کھا رہا تھا اور اس کی یہ حالت دیکھ کر روسی جوڑے نے فوراً اسے گود لے لیا۔
آج یہ ریچھ 23 سال کا ہو چکا ہے اور اس کا وزن 300 پاؤنڈ ہے۔ انتہائی بھاری بھرکم اور دیکھنے میں خوفناک ہونے کے باوجود یہ بالکل دیگر پالتو جانوروں کی طرح اپنے مالکان کے ساتھ رہتا ہے بلکہ یہ گھر کے کئی کاموں میں بھی حصہ لیتا ہے۔ مثلاً پودوں کو پانی دینا اس کا پسندیدہ کام ہے۔ یہ ناشتے کی میز پر بیٹھ کر سب کے ساتھ چائے بھی پیتا ہے اور صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی بھی دیکھتا ہے۔
اسٹیفن روزانہ 25 کلو خوراک کھاتا ہے جس میں مچھلیاں، سبزیاں، پھل اور انڈے وغیرہ شامل ہیں۔ اسٹیپین کے مالکان کا کہنا ہے کہ اس نے بچپن سے لے کر آج تک انہیں کبھی بھی نہیں کاٹا بلکہ یہ ایک معصوم بچے کی طرح ان کے ساتھ رہتا ہے۔ اسٹیپین کو اداکاری اور تصویریں بنوانا بھی بہت پسند ہے۔
اپنے انٹرویو کے لیے قندیل بلوچ ایک گھنٹے سے زیادہ دیر سے پہنچیں۔ ان کا اصرار تھا کہ ان کی فلمنگ ایک ہوٹل کے سوئمنگ پول میں کی جائے، کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ اپنے امیج کی تشہیر کس طرح سے کی جائے۔ لیکن ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ وہ جو کرتی ہیں، دل سے کرتی ہیں دماغ سے نہیں۔
قندیل بلوچ میں اگرچہ ایسا تضاد پایا جاتا ہے، تو وہ پاکستانی معاشرے ہی کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا کوئی مشہور گانا نہیں ہے، نہ مقبول ڈرامے ہیں، نہ فلم میں اداکاری کی ہے، نہ نامور ماڈل ہیں۔ لیکن مشہور پھر بھی ہیں، خاص طور پر نوجوان طبقے میں جو سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔
ان کے فیس بک پیج پر پانچ لاکھ سے زیادہ فالوئرز ہیں۔ پاکستان میں گوگل پر سب سے زیادہ تلاش کیے جانے والی دس شخصیات میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
ان کے فیس بک پیج پر لگائے گئے اپنے ویڈیوز میں وہ کبھی گانا گاتی ہیں، کبھی کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کی جیت کے لیے بے لباس ہونے کا اعلان کرتی ہیں، کبھی تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان سے شادی کرنے کا اعلان۔ وہ بھارت میں تب جانی گئیں جب انھوں نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی توہین کی۔
وہ خود کہتی ہیں کہ آج کل کے دور میں ٹی وی اور فلم سے زیادہ بڑا پلیٹ فارم سوشل میڈیا ہے۔
’شروع میں میں نے کوشش کی، لیکن شوبزنس میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو لڑکیوں کا استحصال کرتے ہیں، دعوتوں میں بلاتے ہیں۔ کسی کی جرات نہیں ہے کہ مجھ سے کوئی براہ راست ایسی بات کرے لیکن ان چیزوں سے مایوس ہو کر سوشل میڈیا کا انتخاب کیا۔‘
ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ لوگ ان کے بارے کیا کہتے ہیں، وہ اپنی آزادی کا خوب فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
’میرے والدین نے مجھے آزادی دی اور میں مانتی ہوں کہ اس کا میں نے ناجائز استعمال کیا، لیکن اب میں ہاتھوں سے نکل چکی ہوں۔‘
اور ان لوگوں کے بارے میں، جو ان کے فیس بک پیج پر بد زبانی کا مظاہرہ کرتے ہیں، قندیل نے اپنے خاص انداز میں سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ’دیکھتے بھی ہو، مذاق بھی اڑاتے ہو، پھر برا بھلا بھی کہتے ہو۔ تو دیکھتے کیوں ہو؟‘
کئی بار لوگوں نے ان کے پیج کو فیس بک سے شکایت کروا کر بند کرانے کی کوشش بھی کی۔
اسلام آباد کے رہائشی حمزہ کے خیال میں اس سے معاشرے کا دہرا معیار ظاہر ہوتا ہے۔ ’ہاں یہ منافقت ہے۔ جیسے ہی قندیل اپنا نیا ویڈیو پیج پر لگاتی ہیں، سب فوراً دیکھتے ہیں۔ پھر ان میں سے کچھ کہتے ہیں، دیکھ رہے ہیں لیکن نفرت کی نگاہ سے۔‘
دوسری جانب مرتضیٰ ان کا پیج بند کروانے کے حق میں ہیں۔’اتنا ماڈرن تو نہیں ہو سکتے کہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے فیس بک پر سب کچھ دکھا دیں۔ یہ پاکستانی معاشرے کی روایات کے خلاف ہے۔ وہ نوجوان طبقے کو گمراہ کر رہی ہے۔‘
موسیقار شہریار مفتی امریکہ میں مقیم ہیں لیکن انھوں نے قندیل بلوچ سے متاثر ہو کر ان پر ’وزیرِ اعظم قندیل بلوچ‘ کے نام سے گانا بنایا ہے اور انھیں اس زمانے کی ایک نشانی قرار دیا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کے باعث پاکستانی معاشرے میں بہت تبدیلیاں آ گئی ہیں اور ان تبدیلیوں کی نمائندہ ایک ایسی ہی سوشل میڈیا سٹار ہو سکتی ہے۔
’وہ ایک خود سر خاتون ہیں جو اپنی خود سری کا مظاہرہ انٹرنیٹ پر کرتی ہیں۔ ایک خود سر خاتون اور انٹرنیٹ۔ ان دونوں کو پاکستانی معاشرے میں زیادہ دیر برداشت نہیں کیا جاتا۔ اور یہ دو چیزیں ہیں جن کی پاکستان میں تاریخ بڑی مشکل رہی ہے۔‘
قندیل شاید انجانے میں پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا سٹار بن گئیں لیکن وہ ایک طرح کا معاشرتی سنگِ میل بھی ہیں۔
MUZAFFARABAD: The Azad Jammu and Kashmir (AJK) government has completed 80pc registration of seminaries and mosques in the region, required under the National Action Plan (NAP).
This was stated by a senior government official at a seminar on the role of religious scholars in connection with NAP here on Tuesday.
“In all 10 districts of Azad Kashmir, more than 45,000 students getting free education in 1,150 seminaries have been registered as per the requirements of NAP,” said Syed Nazirul Hassan Gillani, the secretary Auqaf and religious affairs.
The remaining 450 religious educational institutions would also be registered in the coming months, he added.
He, however, said a complete mapping of all madressahs (registered and unregistered) had been done.
He said the rules for registration had been updated as per the guidelines of NAP and all those seminaries which fulfilled the conditions laid down in Madaris Registration Rules 1991 had been registered.
The official added that workshops were held in all three divisional headquarters to create awareness among Ulema about their role and responsibilities regarding the implementation of NAP.
Due to the proper registration, all seminaries would take uniform benefit from the government that would eventually help them maintain the highest educational standards and compete with other state run educational institutions, he said.
Mr Gillani said the data collected about the seminaries was also shared with the federal interior ministry to put these religious institutions under proper monitoring and government supervision.
On the occasion, religious scholars vowed to continue their efforts to maintain peace and sectarian harmony in the region.
Those scholars who had played a commendable role in this regard were also given certificates.
بچی نے اس سے قبل بھی 2 سال کی عمر میں ریوبک کیوب کو صرف 70 سیکنڈ میں حل کرلیا تھا۔
کیوریٹیبا: برازیل میں معمے حل کرنے کے عالمی مقابلے میں چین کی 3 سالہ بچی نے دنیا کو اس وقت حیران کردیا جب اس نے رنگ برنگے خانوں والی ریوبک کیوب کو صرف 47 سیکنڈ میں حل کردکھا دیا۔
ریوبک کیوب ایک مکعب ہے جسے سلجھانے کے لیے تمام رنگوں والے خانے ایک رخ پر کرنے ہوتے ہیں۔ ریوبک کیوب کو سلجھانے میں خاصہ وقت لگتا ہے اور اس لحاظ سے اس بچی کی صلاحیت غیرمعمولی ہے۔
اس سے قبل اسی بچی کے بڑے بھائی چین ہونگ نے گزشتہ برس 7 سال کی عمر میں صرف 8.72 سیکنڈ میں ریوبک کیوب کو حل کرلیا تھا۔ چین ہونگ نے بھی یہ کارنامہ برازیل میں ہونے والے مقابلے میں انجام دیا تھا لیکن خیال ہے کہ اس عمر تک پہنچ کر ہونگ یان چین قدرے بہتر کارکردگی دکھاسکیں گی۔
چین کی رہائشی 3 سالہ ہونگ یان چین نے برازیل میں ہونے والے عالمی مقابلے میں ریوبک کیوب کا معمہ صرف 47 سیکنڈ میں حل کیا جب کہ اب سے ایک سال قبل صرف 2 سال 11 ماہ کی عمر میں بھی اس بچی نے ریوبک کیوب کو صرف 70 سیکنڈ میں حل کرکے ایک کارنامہ انجام دیا تھا اور اس لحاظ سے اسے پیدائشی طور پر جینیئس قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اب ان کا وقت کم ہوکر وہ صرف 47 سیکنڈ میں معمہ حل کررہی ہیں۔
PESHAWAR: A lawyer on Tuesday filed a petition with the Peshawar High Court seeking the prime minister’s disqualification over the failure to declare his family’s nine offshore companies in the nomination papers for general elections.
In the petition, Mohammad Ayaz Majid, a former additional advocate general, requested the court to declare that Nawaz Sharif had violated Articles 62 and 63 of the Constitution by not disclosing offshore companies of family members and therefore, he was not qualified to hold the prime minister’s office.
He requested the court to declare that it was obligatory for the National Accountability Bureau and Federal Investigation Agency to take action on different news items related to the said offshore companies and that keeping mum on any such offence amounted to professional misconduct and an offence.
The respondents in the petition are Prime Minister Nawaz Sharif, President Mamnoon Hussain, Election Commission of Pakistan, cabinet, interior and foreign secretaries, federal customs collector, Federal Investigation Agency director general, and National Accountability Bureau and Federal Board of Revenue chairmen.
The petitioner said recently, the national and international media reported that around 220 Pakistanis, including the family of the prime minister, had offshore companies abroad.
He said nine offshore companies were registered in the name of the prime minister’s family members, including sons Hussain Nawaz and Hassan Nawaz, and daughter Maryam Nawaz.
The petitioner alleged that since the country’s creation, different people had been looting exchequer and therefore, it was time for the courts to interfere to check it.
He said no Pakistani was allowed to shift foreign currency exceeding certain limits abroad without following certain procedure and the violation of that procedure was an offence.
The petitioner said the prime minister failed to suggest the trail of the shifting of such a huge amount abroad.
He alleged that the matter pertained to the export of currency, tax evasion and money laundering, which were offences under different laws.
The petitioner claimed the formation of a judicial commission to probe the matter and find out the truth in the presence of the prime minister and president was not possible and that it was also against the principle of natural justice, so the removal of the two was imperative for independent inquiry.
Image copyrightUNKNOWNImage captionجاگو ہوا سویرا کی سکرپٹ، مکالمے، گیت سب فیض احمد فیض نے لکھے
یہ ایک ایسی غیرمعمولی پاکستانی فلم کی کہانی ہے جسے نصف صدی کے بعد بھی صبح کے ستارے کا انتظار ہے، ایک ایسی فلم جس کے ہر پہلو سے ہندوستان اور پاکستان کا اشتراک جھلکتا ہے۔
یہ فلم لکھی پاکستان میں گئی، اس میں مرکزی کردار ایک ہندوستانی نے ادا کیا اور اس کی شوٹنگ ڈھاکہ میں ہوئی، جو اس وقت مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا شہر تھا۔
فلموں کے ماہرین فیض احمد فیض کی ’جاگو ہوا سویرا‘ کو پاکستان کی فلمی تاریخ کا سب سے اہم سنگ میل مانتے ہیں، لیکن اسے وہ شہرت اور مقبولیت نہیں مل پائی جس کی وہ مستحق تھی۔
’جاگو ہوا سویرا‘ سنہ 1958 میں بنی تھی اور چند روز قبل فرانس کے شہر کانز میں منعقدہ 69 ویں فلم فیسٹیول میں ’بازیاب‘ کی جانے والی فلموں کے زمرے میں دکھائی گئی۔
اسے روس کے معروف فلم ساز آندريئی تارکووسکی کی ’سولارس‘، فرانسیسی ہدایتکار ریگی وارنیئر کی ’انڈوکٹرن‘ اور مصری فلم ساز یوسف شاہین کی ’گڈبائی بوناپارٹ‘ جیسی ناقابل فراموش فلموں کے ساتھ سکرین کیا گیا۔
Image copyrightImage captionہدایتکار اجے کاردار نے فلم کی ابتدا سنہ 1957 میں کی تھی
بھارتی فلم ناقد سیبل چیٹرجی نے کہا: ’یہ فلم پاکستانی سینیما میں ایک حد فاصل اور سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اس ملک کی یہ واحد نیو ریئلزم کے تحت بنائی جانے والی فلم ہے۔ یہ گم ہو چکی تھی اور جنھوں نے اسے بازیاب کیا ہے انھوں نے بڑا کام کیا ہے۔‘
’جاگو ہوا سویرا‘ سود خوروں کی گرفت کا شکار ماہی گیروں کی کہانی ہے۔
اجے کاردار نے جب سنہ 1957 میں اس کی فلمبندی شروع کی تھی اس وقت پاکستان کے سیاسی منظرنامے نے اس طرح کروٹ لینی شروع کی کہ ملک کی تاریخ بدل کر رہ گئی۔
پاکستان فوجی آمریت کا شکار ہو گیا اور ایسی سیاسی تبدیلی رونما ہوئی جو پاکستان کی تاریخ کا کئی دہائیوں تک مستقل حصہ بنی رہی۔
فلم ساز نعمان تاثیر کے بیٹے انجم تاثیر کہتے ہیں کہ ’دسمبر سنہ 1958 میں فلم کی ریلیز سے تین دن قبل حکومت نے میرے والد سے فلم ریلیز نہ کرنے کے لیے کہا۔ دو ماہ قبل جنرل ایوب خان پاکستان کے پہلے فوجی آمر بنے تھے اور سرد جنگ کے دوران وہ پاکستان کو پوری طرح سے امریکہ کے کیمپ میں لے گئے تھے۔‘
فلم کی سکریننگ کے وقت کانز میں موجود انجم تاثیر کہتے ہیں کہ ’حکومت نے فلم میں شامل نوجوان فنکاروں اور لکھنے والوں کو کمیونسٹ قرار دیا۔ سونے پے سہاگا یہ کہ فلم کی کہانی، گیت اور مکالمے معروف انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے لکھے تھے۔‘
Image copyrightUNKNOWNImage caption’جاگو ہوا سویرا‘ سود خوروں کی گرفت کا شکار ماہی گیروں کی کہانی ہے
فیض احمد فیض کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے بتایا: ’جنرل ایوب خان نے میرے والد اور کئی دوسرے فنکاروں کو قید کر دیا۔‘
تاثیر نے کہا: ’میرے والد اور دوسرے لوگوں نے لندن میں اس کی نمائش کا فیصلہ کیا لیکن حکومت نے پاکستان ہائی کمیشن کو اس فلم کے بائیکاٹ کا حکم دیا۔‘
لیکن اس دن برطانیہ میں اس وقت کے ہائی کمشنر اکرام عطاء اللہ اور ان کی اہلیہ نے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پریمیئر میں شرکت کی۔
اس فلم نے انڈیا کے معروف ہدایت کار ستیہ جیت رے کی سنہ 1955 کی فلم ’پاتھیر پنچالی‘ سے تحریک حاصل کی تھی اور اسے ’نیؤریئلزم‘ پر مبنی سنیما کے زمرے میں شامل کیاجاتا ہے۔ فلم کو بلیک اینڈ وائٹ میں بنگلہ دیش کے پرشکوہ دریا میگھنا کے ساحل پر فلمایا گیا ہے۔ بنگلہ دیش اس وقت مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا۔
فلم میں ڈھاکہ کے نزدیک ستنوئی گاؤں کی ماہی گیر برادری کی محنت کو پیش کیا گیا ہے جو کہ سود پر پیسے دینے والے گرگ نما مہاجنوں کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔
Image copyrightALI HASHMIImage captionاس فلم کی ناکامی سے فیض بہت صدمہ پہنچا تھا
فیض احمد فیض کو معروف بنگالی مصنف مانک بندھوپادھیائے کی کہانی سے اس فلم کے لیے تحریک ملتی ہے۔ اس میں کولکتہ میں رہنے والے موسیقار تیمر بارن نے موسیقی دی ہے جبکہ اس فلم کی واحد پیشہ ور اداکارہ ترپتی مترا بھی ہندوستانی ہیں۔
سنہ 1940 کی دہائی میں ترپتی اور ان کے شوہر شومبھو مترا دونوں کمیونسٹ نظریے والی تنظیم ’اپٹا‘ کے رکن تھے۔ فیض، بارن اور مترا کے آنے کے بعد فلم ساز نے برطانوی سینیمیٹوگرافر والٹر لیزرلی کی خدمات حاصل کیں۔
بعد میں لیزلی کو ’زوربا دا گریک‘ کے لیے سنہ 1964 میں آسکر ایوارڈ ملا اور پھر کیمرہ مین کے طور پر ’ہیٹ اینڈ دسٹ‘ (1983) کے لیے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
جمالیات اور پروڈکشن کے اعلیٰ معیاراور حکومت کے ساتھ ابتدائی چپقلش کے سبب ملنے والی مقبولیت کے نتیجے میں اس فلم کو کامیاب ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ تاثیر نے بتایا کہ ’مالی طور پر یہ منافع بخش ثابت نہیں ہوئي۔ چند ہفتوں میں سب اسے بھول گئے ۔
ایک کلاسک فلم جسے ’لا سٹریڈا‘، ’دا بائیسکل تھیف‘ اور ’پاتھیر پنچالی‘ جیسی فلموں کے زمرے میں ہونا چاہیے تھا وہ دنیائے سینیما میں کہیں گم ہو گئی۔
Image copyrightImage captionگذشتہ سال فیض انٹرنیشنل فیسٹیول میں اس فلم کا ذکر آیا تھا
پھر آنے والے 50 برسوں تک کسی نے اس کا ذکر تک نہیں کیا، تا آنکہ فرانس کے شہر نانتے میں ’تھری کونٹینینٹس فلم فیسٹیول‘ کے بانی فرانسیسی برادران فلپ اور ایلن جلادیو نے سنہ 2007 میں پرانی پاکستانی فلموں کی پیشکش کا فیصلہ نہیں کیا۔
فلپ جلادیو بھی کان میں موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ’پاکستانی ڈاکومنٹری فلم ساز شیرین پاشا نے کہا کہ جاگو ہوا سویرا کے بغیر آپ پاکستانی فلم کے ماضی پر نظر نہیں ڈال سکتے۔‘
اس کے بعد اس فلم کی زور شور سے تلاش شروع ہوئی اور تاثیر (جن کے والد سنہ 1996 میں انتقال کر چکےتھے) نے پاکستان اور بنگلہ دیش، پونے (انڈیا)، لندن اور پیرس کے ارکائیوز میں اس فلم کی تلاش کی۔ نمائش سے ایک ہفتے قبل تاثیر کو اس فلم کی چند ریلز فرانسیسی فلم تقسیم کار کے پاس ملیں جبکہ چند لندن اور چند کراچی سے بازیاب ہوئیں۔ ’اراؤنڈ دا ورلڈ ان 80 ڈیز' کے خالق نے بتایا کہ ان سب کو ایک ساتھ رکھ کر ’قابل دید‘ حالت میں لایا گیا اور پھر اس کی نومبر میں نانتے میں نمائش ہوئی۔
Image copyrightImage captionجاگو ہوا سویرا کی اداکارہ ترپتی کا تعلق انڈیا سے تھا
اس کے بعد تاثیر نے فلم کی بحالی کا بیڑا اٹھا لیا اور اس کی کاپیاں چینئی کے ’پرساد لیبز‘ میں بھیجی گئیں۔ تاثیر نے کہا کہ انڈیا کے کسٹمز سے اس فلم کو حاصل کرنے میں چھ مہینے لگ گئے۔ وہ اس تاخیر سے اس قدر برگشتہ ہو گئے تھے کہ انھوں نے فلم کی بحالی کے لیے اسے سنہ 2008 میں لندن لے جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بالآخر فلم کی بحالی سنہ 2010 میں مکمل ہوئی۔
تاثیر نے فیض کی بیٹی سلیمہ ہاشمی اور فلپ جلادیو کے ساتھ فلم کو کانز میں گرانڈ پیلس کے بونوئل تھیئٹر میں پیش کیا۔
نصف ہال خالی تھا، کوئي پاکستانی فلم ناقد وہاں موجود نہیں تھا جبکہ صرف چار ہندوستانی صحافی فلم دیکھنے آئے تھے۔ بعد میں اسی دن فلم کے شوقین ہندوستان میں گھوم گھوم کر سینیما دکھانے والی تقریباً ناپید روایت کے متعلق ’دا سینیما ٹراویلرز‘ کے پریمیئر کے لیے بڑی تعداد میں یکجا ہوئے۔ یہ فلم بھی اسی زمرے میں دکھائی گئی اور اس میں کانز میں شرکت کے لیے آنے والے صحافیوں کا پورا قافلہ موجود تھا۔
تاثیر اور فلم کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ وہ آج کے ناظرین اور سینیما کے درمیان حائل نسلی خلیج سے واقف ہیں لیکن ہار تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
Image copyrightImage captionایک گروپ فوٹو میں سفید شرٹ میں فیض احمد فیض کو دیکھا جا سکتا ہے
انھوں نے کہا میں اس فلم کو پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں دکھانا چاہتا ہوں۔ یہ فلم تینوں ممالک کے لوگوں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔
وہ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ کشتیوں میں جدت آ گئی ہے اور وہ موٹر سے چلنے لگی ہیں لیکن تینوں ممالک میں ماہی گیروں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ آج کے ماہی گیروں کے پاس موبائل فون ہے لیکن قرضے وہی ہیں۔ پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں بہت سے باصلاحیت نوجوان ہیں اور ہم تینوں ممالک کے باصلاحیت فلم سازوں کی مدد سے ایک فلم بنانا چاہتے ہیں۔ یہ فلم فی الحال لندن کے ایک آرکائیو میں رکھی ہوئی ہے۔
تاثیر صبح کے ستارے کا انتظار کر رہے ہیں اور ’جاگو ہوا سویرا‘ پاکستان میں ایک سینیما آرکائیو کا۔