یہ ایک ایسی غیرمعمولی پاکستانی فلم کی کہانی ہے جسے نصف صدی کے بعد بھی صبح کے ستارے کا انتظار ہے، ایک ایسی فلم جس کے ہر پہلو سے ہندوستان اور پاکستان کا اشتراک جھلکتا ہے۔
یہ فلم لکھی پاکستان میں گئی، اس میں مرکزی کردار ایک ہندوستانی نے ادا کیا اور اس کی شوٹنگ ڈھاکہ میں ہوئی، جو اس وقت مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا شہر تھا۔
فلموں کے ماہرین فیض احمد فیض کی ’جاگو ہوا سویرا‘ کو پاکستان کی فلمی تاریخ کا سب سے اہم سنگ میل مانتے ہیں، لیکن اسے وہ شہرت اور مقبولیت نہیں مل پائی جس کی وہ مستحق تھی۔
’جاگو ہوا سویرا‘ سنہ 1958 میں بنی تھی اور چند روز قبل فرانس کے شہر کانز میں منعقدہ 69 ویں فلم فیسٹیول میں ’بازیاب‘ کی جانے والی فلموں کے زمرے میں دکھائی گئی۔
اسے روس کے معروف فلم ساز آندريئی تارکووسکی کی ’سولارس‘، فرانسیسی ہدایتکار ریگی وارنیئر کی ’انڈوکٹرن‘ اور مصری فلم ساز یوسف شاہین کی ’گڈبائی بوناپارٹ‘ جیسی ناقابل فراموش فلموں کے ساتھ سکرین کیا گیا۔
بھارتی فلم ناقد سیبل چیٹرجی نے کہا: ’یہ فلم پاکستانی سینیما میں ایک حد فاصل اور سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اس ملک کی یہ واحد نیو ریئلزم کے تحت بنائی جانے والی فلم ہے۔ یہ گم ہو چکی تھی اور جنھوں نے اسے بازیاب کیا ہے انھوں نے بڑا کام کیا ہے۔‘
’جاگو ہوا سویرا‘ سود خوروں کی گرفت کا شکار ماہی گیروں کی کہانی ہے۔
اجے کاردار نے جب سنہ 1957 میں اس کی فلمبندی شروع کی تھی اس وقت پاکستان کے سیاسی منظرنامے نے اس طرح کروٹ لینی شروع کی کہ ملک کی تاریخ بدل کر رہ گئی۔
پاکستان فوجی آمریت کا شکار ہو گیا اور ایسی سیاسی تبدیلی رونما ہوئی جو پاکستان کی تاریخ کا کئی دہائیوں تک مستقل حصہ بنی رہی۔
فلم ساز نعمان تاثیر کے بیٹے انجم تاثیر کہتے ہیں کہ ’دسمبر سنہ 1958 میں فلم کی ریلیز سے تین دن قبل حکومت نے میرے والد سے فلم ریلیز نہ کرنے کے لیے کہا۔ دو ماہ قبل جنرل ایوب خان پاکستان کے پہلے فوجی آمر بنے تھے اور سرد جنگ کے دوران وہ پاکستان کو پوری طرح سے امریکہ کے کیمپ میں لے گئے تھے۔‘
فلم کی سکریننگ کے وقت کانز میں موجود انجم تاثیر کہتے ہیں کہ ’حکومت نے فلم میں شامل نوجوان فنکاروں اور لکھنے والوں کو کمیونسٹ قرار دیا۔ سونے پے سہاگا یہ کہ فلم کی کہانی، گیت اور مکالمے معروف انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے لکھے تھے۔‘
فیض احمد فیض کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے بتایا: ’جنرل ایوب خان نے میرے والد اور کئی دوسرے فنکاروں کو قید کر دیا۔‘
تاثیر نے کہا: ’میرے والد اور دوسرے لوگوں نے لندن میں اس کی نمائش کا فیصلہ کیا لیکن حکومت نے پاکستان ہائی کمیشن کو اس فلم کے بائیکاٹ کا حکم دیا۔‘
لیکن اس دن برطانیہ میں اس وقت کے ہائی کمشنر اکرام عطاء اللہ اور ان کی اہلیہ نے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پریمیئر میں شرکت کی۔
اس فلم نے انڈیا کے معروف ہدایت کار ستیہ جیت رے کی سنہ 1955 کی فلم ’پاتھیر پنچالی‘ سے تحریک حاصل کی تھی اور اسے ’نیؤریئلزم‘ پر مبنی سنیما کے زمرے میں شامل کیاجاتا ہے۔ فلم کو بلیک اینڈ وائٹ میں بنگلہ دیش کے پرشکوہ دریا میگھنا کے ساحل پر فلمایا گیا ہے۔ بنگلہ دیش اس وقت مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا۔
فلم میں ڈھاکہ کے نزدیک ستنوئی گاؤں کی ماہی گیر برادری کی محنت کو پیش کیا گیا ہے جو کہ سود پر پیسے دینے والے گرگ نما مہاجنوں کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔
فیض احمد فیض کو معروف بنگالی مصنف مانک بندھوپادھیائے کی کہانی سے اس فلم کے لیے تحریک ملتی ہے۔ اس میں کولکتہ میں رہنے والے موسیقار تیمر بارن نے موسیقی دی ہے جبکہ اس فلم کی واحد پیشہ ور اداکارہ ترپتی مترا بھی ہندوستانی ہیں۔
سنہ 1940 کی دہائی میں ترپتی اور ان کے شوہر شومبھو مترا دونوں کمیونسٹ نظریے والی تنظیم ’اپٹا‘ کے رکن تھے۔ فیض، بارن اور مترا کے آنے کے بعد فلم ساز نے برطانوی سینیمیٹوگرافر والٹر لیزرلی کی خدمات حاصل کیں۔
بعد میں لیزلی کو ’زوربا دا گریک‘ کے لیے سنہ 1964 میں آسکر ایوارڈ ملا اور پھر کیمرہ مین کے طور پر ’ہیٹ اینڈ دسٹ‘ (1983) کے لیے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
جمالیات اور پروڈکشن کے اعلیٰ معیاراور حکومت کے ساتھ ابتدائی چپقلش کے سبب ملنے والی مقبولیت کے نتیجے میں اس فلم کو کامیاب ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ تاثیر نے بتایا کہ ’مالی طور پر یہ منافع بخش ثابت نہیں ہوئي۔ چند ہفتوں میں سب اسے بھول گئے ۔
ایک کلاسک فلم جسے ’لا سٹریڈا‘، ’دا بائیسکل تھیف‘ اور ’پاتھیر پنچالی‘ جیسی فلموں کے زمرے میں ہونا چاہیے تھا وہ دنیائے سینیما میں کہیں گم ہو گئی۔
پھر آنے والے 50 برسوں تک کسی نے اس کا ذکر تک نہیں کیا، تا آنکہ فرانس کے شہر نانتے میں ’تھری کونٹینینٹس فلم فیسٹیول‘ کے بانی فرانسیسی برادران فلپ اور ایلن جلادیو نے سنہ 2007 میں پرانی پاکستانی فلموں کی پیشکش کا فیصلہ نہیں کیا۔
فلپ جلادیو بھی کان میں موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ’پاکستانی ڈاکومنٹری فلم ساز شیرین پاشا نے کہا کہ جاگو ہوا سویرا کے بغیر آپ پاکستانی فلم کے ماضی پر نظر نہیں ڈال سکتے۔‘
اس کے بعد اس فلم کی زور شور سے تلاش شروع ہوئی اور تاثیر (جن کے والد سنہ 1996 میں انتقال کر چکےتھے) نے پاکستان اور بنگلہ دیش، پونے (انڈیا)، لندن اور پیرس کے ارکائیوز میں اس فلم کی تلاش کی۔ نمائش سے ایک ہفتے قبل تاثیر کو اس فلم کی چند ریلز فرانسیسی فلم تقسیم کار کے پاس ملیں جبکہ چند لندن اور چند کراچی سے بازیاب ہوئیں۔ ’اراؤنڈ دا ورلڈ ان 80 ڈیز' کے خالق نے بتایا کہ ان سب کو ایک ساتھ رکھ کر ’قابل دید‘ حالت میں لایا گیا اور پھر اس کی نومبر میں نانتے میں نمائش ہوئی۔
اس کے بعد تاثیر نے فلم کی بحالی کا بیڑا اٹھا لیا اور اس کی کاپیاں چینئی کے ’پرساد لیبز‘ میں بھیجی گئیں۔ تاثیر نے کہا کہ انڈیا کے کسٹمز سے اس فلم کو حاصل کرنے میں چھ مہینے لگ گئے۔ وہ اس تاخیر سے اس قدر برگشتہ ہو گئے تھے کہ انھوں نے فلم کی بحالی کے لیے اسے سنہ 2008 میں لندن لے جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بالآخر فلم کی بحالی سنہ 2010 میں مکمل ہوئی۔
تاثیر نے فیض کی بیٹی سلیمہ ہاشمی اور فلپ جلادیو کے ساتھ فلم کو کانز میں گرانڈ پیلس کے بونوئل تھیئٹر میں پیش کیا۔
نصف ہال خالی تھا، کوئي پاکستانی فلم ناقد وہاں موجود نہیں تھا جبکہ صرف چار ہندوستانی صحافی فلم دیکھنے آئے تھے۔ بعد میں اسی دن فلم کے شوقین ہندوستان میں گھوم گھوم کر سینیما دکھانے والی تقریباً ناپید روایت کے متعلق ’دا سینیما ٹراویلرز‘ کے پریمیئر کے لیے بڑی تعداد میں یکجا ہوئے۔ یہ فلم بھی اسی زمرے میں دکھائی گئی اور اس میں کانز میں شرکت کے لیے آنے والے صحافیوں کا پورا قافلہ موجود تھا۔
تاثیر اور فلم کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ وہ آج کے ناظرین اور سینیما کے درمیان حائل نسلی خلیج سے واقف ہیں لیکن ہار تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا میں اس فلم کو پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں دکھانا چاہتا ہوں۔ یہ فلم تینوں ممالک کے لوگوں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔
وہ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ کشتیوں میں جدت آ گئی ہے اور وہ موٹر سے چلنے لگی ہیں لیکن تینوں ممالک میں ماہی گیروں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ آج کے ماہی گیروں کے پاس موبائل فون ہے لیکن قرضے وہی ہیں۔ پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں بہت سے باصلاحیت نوجوان ہیں اور ہم تینوں ممالک کے باصلاحیت فلم سازوں کی مدد سے ایک فلم بنانا چاہتے ہیں۔ یہ فلم فی الحال لندن کے ایک آرکائیو میں رکھی ہوئی ہے۔
تاثیر صبح کے ستارے کا انتظار کر رہے ہیں اور ’جاگو ہوا سویرا‘ پاکستان میں ایک سینیما آرکائیو کا۔
No comments:
Post a Comment