اپنے انٹرویو کے لیے قندیل بلوچ ایک گھنٹے سے زیادہ دیر سے پہنچیں۔ ان کا اصرار تھا کہ ان کی فلمنگ ایک ہوٹل کے سوئمنگ پول میں کی جائے، کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ اپنے امیج کی تشہیر کس طرح سے کی جائے۔ لیکن ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ وہ جو کرتی ہیں، دل سے کرتی ہیں دماغ سے نہیں۔
قندیل بلوچ میں اگرچہ ایسا تضاد پایا جاتا ہے، تو وہ پاکستانی معاشرے ہی کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا کوئی مشہور گانا نہیں ہے، نہ مقبول ڈرامے ہیں، نہ فلم میں اداکاری کی ہے، نہ نامور ماڈل ہیں۔ لیکن مشہور پھر بھی ہیں، خاص طور پر نوجوان طبقے میں جو سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔
ان کے فیس بک پیج پر پانچ لاکھ سے زیادہ فالوئرز ہیں۔ پاکستان میں گوگل پر سب سے زیادہ تلاش کیے جانے والی دس شخصیات میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
ان کے فیس بک پیج پر لگائے گئے اپنے ویڈیوز میں وہ کبھی گانا گاتی ہیں، کبھی کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کی جیت کے لیے بے لباس ہونے کا اعلان کرتی ہیں، کبھی تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان سے شادی کرنے کا اعلان۔ وہ بھارت میں تب جانی گئیں جب انھوں نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی توہین کی۔
وہ خود کہتی ہیں کہ آج کل کے دور میں ٹی وی اور فلم سے زیادہ بڑا پلیٹ فارم سوشل میڈیا ہے۔
’شروع میں میں نے کوشش کی، لیکن شوبزنس میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو لڑکیوں کا استحصال کرتے ہیں، دعوتوں میں بلاتے ہیں۔ کسی کی جرات نہیں ہے کہ مجھ سے کوئی براہ راست ایسی بات کرے لیکن ان چیزوں سے مایوس ہو کر سوشل میڈیا کا انتخاب کیا۔‘
ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ لوگ ان کے بارے کیا کہتے ہیں، وہ اپنی آزادی کا خوب فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
’میرے والدین نے مجھے آزادی دی اور میں مانتی ہوں کہ اس کا میں نے ناجائز استعمال کیا، لیکن اب میں ہاتھوں سے نکل چکی ہوں۔‘
اور ان لوگوں کے بارے میں، جو ان کے فیس بک پیج پر بد زبانی کا مظاہرہ کرتے ہیں، قندیل نے اپنے خاص انداز میں سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ’دیکھتے بھی ہو، مذاق بھی اڑاتے ہو، پھر برا بھلا بھی کہتے ہو۔ تو دیکھتے کیوں ہو؟‘
کئی بار لوگوں نے ان کے پیج کو فیس بک سے شکایت کروا کر بند کرانے کی کوشش بھی کی۔
اسلام آباد کے رہائشی حمزہ کے خیال میں اس سے معاشرے کا دہرا معیار ظاہر ہوتا ہے۔ ’ہاں یہ منافقت ہے۔ جیسے ہی قندیل اپنا نیا ویڈیو پیج پر لگاتی ہیں، سب فوراً دیکھتے ہیں۔ پھر ان میں سے کچھ کہتے ہیں، دیکھ رہے ہیں لیکن نفرت کی نگاہ سے۔‘
دوسری جانب مرتضیٰ ان کا پیج بند کروانے کے حق میں ہیں۔’اتنا ماڈرن تو نہیں ہو سکتے کہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے فیس بک پر سب کچھ دکھا دیں۔ یہ پاکستانی معاشرے کی روایات کے خلاف ہے۔ وہ نوجوان طبقے کو گمراہ کر رہی ہے۔‘
موسیقار شہریار مفتی امریکہ میں مقیم ہیں لیکن انھوں نے قندیل بلوچ سے متاثر ہو کر ان پر ’وزیرِ اعظم قندیل بلوچ‘ کے نام سے گانا بنایا ہے اور انھیں اس زمانے کی ایک نشانی قرار دیا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کے باعث پاکستانی معاشرے میں بہت تبدیلیاں آ گئی ہیں اور ان تبدیلیوں کی نمائندہ ایک ایسی ہی سوشل میڈیا سٹار ہو سکتی ہے۔
’وہ ایک خود سر خاتون ہیں جو اپنی خود سری کا مظاہرہ انٹرنیٹ پر کرتی ہیں۔ ایک خود سر خاتون اور انٹرنیٹ۔ ان دونوں کو پاکستانی معاشرے میں زیادہ دیر برداشت نہیں کیا جاتا۔ اور یہ دو چیزیں ہیں جن کی پاکستان میں تاریخ بڑی مشکل رہی ہے۔‘
قندیل شاید انجانے میں پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا سٹار بن گئیں لیکن وہ ایک طرح کا معاشرتی سنگِ میل بھی ہیں۔
No comments:
Post a Comment