برطانیہ میں قریب الموت مریضوں پر کیے
جانے والے ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ہزاروں مریضوں پر ان کے خاندان
والوں کو بتائے بغیر ’بحال نہ کیا جائے‘ کے احکامات لاگو کیے گئے۔
رائل
کالج آف فِزیشنز نے ایسے دو لاکھ کیسوں کی جانچ کی جس میں سے تقریباً 40
ہزار خاندان اس بات سے لاعلم تھے کہ ان کے مریضوں کی جان نہ بچانے کی کوشش
کے احکامات انھیں بتائے بغیر جاری کیے گئے تھے۔رپورٹ کے مصنف پروفیسر سلیم احمد زئی نے کہا کہ مریضوں کو یہ بات نہ بتانا ’ناقابلِ معافی‘ ہے اور ہسپتالوں کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی۔
انگلینڈ میں صحت کے ادارے این ایچ ایس کے مطابق زندگی کے آخری لمحات میں مریضوں کی دیکھ بھال کا معیار بڑھا تو ہے لیکن اس میں اب بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔
اس مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ تقریباً دو لاکھ مریضوں کی آخری لمحات میں جان نہ بچانے کی کوشش کے احکامات جاری کیے جاتے ہیں، جسے ’ڈی این آر‘ آرڈر (Do Not Resuscitate) بھی کہا جاتا ہے۔ اس آرڈر کا مطلب ہوتا ہے کہ جب مریض کا دل بند ہو جائے یا سانسیں رک جائیں تو اسے بحال کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
پروفیسر سلیم نے کہا کہ اس طرح کے بہت سے کیسوں میں مریض کے رشتہ دار موقعے پر موجود ہی نہیں تھے جن سے اس بارے میں پوچھا جاتا یا رابطہ کیا جاتا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اور نرسیں مریضوں کے رشتہ داروں سے رابطہ کرنے کے حوالے سے بہتر اقدامات کر سکتے ہیں، اور موجودہ طرزِ عمل ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسا کریں، لیکن ڈاکٹروں اور نرسوں کے پاس وقت کم ہوتا ہے۔ وہ بہت سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ مرنے والے مریضوں کے ساتھ ساتھ دوسرے ایسے مریضوں کا بھی خیال رکھ رہے ہوتے ہیں جن کو علاج کی ضرورت ہے، اور جب آپ مصروف ہوتے ہیں تو مریضوں سے رابطہ کرنا تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔‘
پروفیسر احمد زئی کا کہنا تھا کہ لواحقین سے رابطہ کرنے کے طریقۂ کار کو بہتر بنانے کے حوالے سے ملک بھر میں تربیت فراہم کی جائے گی۔
برطانوی طبی ادارے برٹش میڈیکل ایسوسیی ایشن کے جاری کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق ’ڈی این آر‘ آرڈر صرف مریضوں کے رشتہ داروں سے مشورے کے بعد ہی جاری کیا جانا چاہیے۔
No comments:
Post a Comment