یہ کون چلا گیا لوگو ۔۔؟؟
سید عارف مصطفیٰ ۔۔۔۔۔ اندھیرا اور بڑھ گیا ہے ۔۔۔۔۔ اک بڑا آدمی مرگیا ہے
قحط الرجال کا آشوب اور وہ بھی ایسا ویسا ۔۔۔ شعبہء علم وطبابت کا سب سے بڑا شجر سایہ دار حکیم سعید کٹ گرا تو کلیجہ نچ سا گیا تھا اور اب سماجی فلاحی خدمات کے خادم اعظم ایدھی صاحب نے آنکھیں بند کر لی ہیں تو جیسے دل پہ ہاتھ سا پڑا ہے ۔۔۔ اور یہ معاملہ صرف اک میرے ساتھ ہی نہیں ، پاکستان کے ہر فرد کے احساسات کا یہی عالم ہے، کسی شہر یا گاؤں کے گلی کوچے میں چلے جائیں فضاء سوگوار ہے کوئی برسرعام اشکبار ہے تو کسی کے آنسو من ہی من کےاندر اسکےدل پہ گر رہے ہیں - کیسا عجب سا دکھ ہے کہ جب زندہ ماں باپ والوں میں بھی یتیمی کا احساس در آئے اور یتیم خود کو یکایک دوبارہ یتیم محسوس کرنے لگیں کیونکہ ساری عمر دکھی انسانیت کی بہبود ہی اسکی شناخت رہی اور خاص طور پہ وہ مظلوم و بے سہارا لوگ کے جو انکے قائم کردہ متعدد مراکز کے سائبان تلے رہ رہے ہیں - تاہم ایک عجیب بات جو ایدھی صاحب کے حوالے سے ہوئی وہ خود ایک ایسے آدمی سے سنی جو انہی کی میمن بانٹوا برادری سے تعلق رکھتا تھا اور جسے میں کبھی نہیں بھول سکتا وہ یہ ہے کہ جب میں نے اس سے پوچھا کہ آپکی ایدھی صاحب سے متعلق کیا رائے ہے تو اسنے فوراً ہی اور بڑی تلخی سے ایدھی کی مذمت سے لبریز ایک بیان داغ دیا - اسنے کہا کہ ایدھی ہماری برادری کا رکن ہونے کے باوجود ہمیں کبھی کسی طرح کی ترجیح نہیں دیتا اور ہماری کمیونٹی کے جو افراد کسی کام سے اسکے مراکز میں جاتے ہیں تو انکے ساتھ کوئی خصوصی ترجیحی برتاؤ کرنے کے بجائے سبھی دیگر عام افراد جیسا رویہ اختیار کرتا ہے اور ہمیں بھی ویسے ہی لائن میں لگنا پڑتا ہے ،،، اس ناسمجھ اور مطلبی شخص نے اپنے طور پہ تو ایدھی صاحب کی برائی کی تھی لیکن یہ سچائی جان کر میرے دل میں عبدالستار ایدھی کی تکریم مزید کئی گنا بڑھ گئی
وہ فقیر منش انسان درحقیقت آپا دھاپی کا شکار اس معاشرے میں انسانی خدمت کا سب سے بڑا استعارہ تھا ، شفقت کا سہارا تھا اور ایک مذہب اور ایک مسلک سے تعلق رکھنے اور کسی علاقائی نسبت کے باوجود فلاحی کاموں کے معاملے میں مذہب و نظریئے مسلک و فرقہ اورزبان و نسل کی تفریق اور عصبیت کے احساس سے قطعی ناآشناء ۔۔۔ شاید وہ واحد آدمی کہ جس کی دیانت و امانت پہ قوم کی عظیم ترین اکثریت کو پورا پورا بھروسہ تھا - اس پہلو سے بھی دیکیھئے کہ عالمی میڈیا میں ہر دور میں پاکستانیوں کے لیئے کسی بھی شعبے میں مسابقت کی مد میں خفت و شرمندگی کے ایک نہیں کئی حوالے موجود رہے ہیں اور خاص طور پہ تعلیم اور معاشی درجہ بندیوں کی فہرست تو پشیمانی سے پیشانیاں عرق آلود کرے دیتی ہے اتنی ترقی کے باوجود آج بھی معاشی رتبے میں پاکستان کا 117 واں نمبر ہے اور تعلیم کی ضمن میں اسکا مقام عالم اقوام میں 134 ویں درجہ پست ہے ۔۔۔ لیکن یہ سب خجالتیں اس وقت ذرا ماند پڑجاتی ہیں کہ جب گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ ساری دنیا کو یہ بتاتا ہے کہ سماجی خدمات کے شعبے میں پاکستان اقوام عالم میں اس مد میں سب پہ بازی لے گیا ہے کہ یہآں دنیا کا سب سے بڑا ایمبولینس نیٹ ورک موجود ہے اور یہ نیٹ ورک ایدھی ٹرسٹ کا ہے اور اب تو اس میں کئی ایئر ایمبولینسیں اور طیارے بھی شامل فہرست ہوگئے ہیں - اور یہی نہیں کہ انکی بہبود عامہ کا دائرہ صرف بے سہرا انسانوں تک ہی محدود تھا ۔۔۔ انہوں نے لاوارث اور زخمی و بیمار جانوروں کے لیئے کراچی میں ایک بڑا اینیمل ہوم بھی قائم کیا کہ جس میں 12 ہزار سے زائد مختلف قسموں کے جانور بھی زیرکفالت رکھے گئے ہیں - اور یہ سب جناتی کام کرنے میں انہوں نے کبھی کسی حکومت اور اسارے سے کبھی کوئی مدد نہیں لی اور انکی خطیر امدادی پیشکشوں کو وہ بڑی نرمی و شائستگی سے مسترد کرتے رہے
ہر بڑے آدمی طرح ایدھی صاحب کو بھی چند انگلیاں اٹھانے والے دستیاب رہے کہ شاید انہی لوگوں کی بھرپور توجہ و تنقیدی جہد مسلسل کسی حقیقی بڑے آدمی کو ابھارنے کے لیئے بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ،،، ان پہ مسلسل کئی گھناؤنے الزامات بھی لگائے جاتے رہے لیکن انکا کامل 60 برس سے زائد بے نیازانہ اپنے سماجی فلاح کے کام میں لگے رہنا اور اس قسم کے معترضین کی بدگوئیوں کا کوئی نوٹس نہ لینا ہمیشہ انکا شعار رہا اور رفتہ رفتہ ان بدگمان لوگوں کی بڑی تعداد کھسیا کر خودہی انکے رستے سے ہٹ جانے پہ مجبور بھی ہوتی رہی - انکی ان بے پایاں سمجی فلاحی خدمات کے اعتراف میں ویسے تو پاکستان کی حکومت اپناسب سے بڑا سول اعزاز دو مرتبہ دے چکی ہے لیکن مختلف حلقوں کی طرف سے انہیں نوبل پرائز دینے کا مطالبہ بھی سننے میں آرہا ہے تاہم اس ضمن میں میرا کہنا یہ ہے کہ انسانیت کے لیئے ایدھی صاحب کے پہاڑ جیسے کام کو دیکھا جائے تو وہ انکے فلاحی کارناموں کے سامنے یکدم ہیچ ہے بلکہ مناسب تو یہ ہے کہ پاکستانی حکومت انکے کارناموں کےحقیقی طور پہ اعتراف کرنے کے ثبوت کے طور پہ اقوام عالم میں عظیم سماجی خدمات انجام دینے پہ ہرسال ایک ایدھی نشان خدمت نامی تمغہ جاری کرے تاکہ قوم کے اس محسن کے عظیم کاناموں کی یاد عالمی سطح پہ بھی ہمیشہ زندہ رکھی جاسکے-
سید عارف مصطفیٰ ۔۔۔۔۔ اندھیرا اور بڑھ گیا ہے ۔۔۔۔۔ اک بڑا آدمی مرگیا ہے
قحط الرجال کا آشوب اور وہ بھی ایسا ویسا ۔۔۔ شعبہء علم وطبابت کا سب سے بڑا شجر سایہ دار حکیم سعید کٹ گرا تو کلیجہ نچ سا گیا تھا اور اب سماجی فلاحی خدمات کے خادم اعظم ایدھی صاحب نے آنکھیں بند کر لی ہیں تو جیسے دل پہ ہاتھ سا پڑا ہے ۔۔۔ اور یہ معاملہ صرف اک میرے ساتھ ہی نہیں ، پاکستان کے ہر فرد کے احساسات کا یہی عالم ہے، کسی شہر یا گاؤں کے گلی کوچے میں چلے جائیں فضاء سوگوار ہے کوئی برسرعام اشکبار ہے تو کسی کے آنسو من ہی من کےاندر اسکےدل پہ گر رہے ہیں - کیسا عجب سا دکھ ہے کہ جب زندہ ماں باپ والوں میں بھی یتیمی کا احساس در آئے اور یتیم خود کو یکایک دوبارہ یتیم محسوس کرنے لگیں کیونکہ ساری عمر دکھی انسانیت کی بہبود ہی اسکی شناخت رہی اور خاص طور پہ وہ مظلوم و بے سہارا لوگ کے جو انکے قائم کردہ متعدد مراکز کے سائبان تلے رہ رہے ہیں - تاہم ایک عجیب بات جو ایدھی صاحب کے حوالے سے ہوئی وہ خود ایک ایسے آدمی سے سنی جو انہی کی میمن بانٹوا برادری سے تعلق رکھتا تھا اور جسے میں کبھی نہیں بھول سکتا وہ یہ ہے کہ جب میں نے اس سے پوچھا کہ آپکی ایدھی صاحب سے متعلق کیا رائے ہے تو اسنے فوراً ہی اور بڑی تلخی سے ایدھی کی مذمت سے لبریز ایک بیان داغ دیا - اسنے کہا کہ ایدھی ہماری برادری کا رکن ہونے کے باوجود ہمیں کبھی کسی طرح کی ترجیح نہیں دیتا اور ہماری کمیونٹی کے جو افراد کسی کام سے اسکے مراکز میں جاتے ہیں تو انکے ساتھ کوئی خصوصی ترجیحی برتاؤ کرنے کے بجائے سبھی دیگر عام افراد جیسا رویہ اختیار کرتا ہے اور ہمیں بھی ویسے ہی لائن میں لگنا پڑتا ہے ،،، اس ناسمجھ اور مطلبی شخص نے اپنے طور پہ تو ایدھی صاحب کی برائی کی تھی لیکن یہ سچائی جان کر میرے دل میں عبدالستار ایدھی کی تکریم مزید کئی گنا بڑھ گئی
وہ فقیر منش انسان درحقیقت آپا دھاپی کا شکار اس معاشرے میں انسانی خدمت کا سب سے بڑا استعارہ تھا ، شفقت کا سہارا تھا اور ایک مذہب اور ایک مسلک سے تعلق رکھنے اور کسی علاقائی نسبت کے باوجود فلاحی کاموں کے معاملے میں مذہب و نظریئے مسلک و فرقہ اورزبان و نسل کی تفریق اور عصبیت کے احساس سے قطعی ناآشناء ۔۔۔ شاید وہ واحد آدمی کہ جس کی دیانت و امانت پہ قوم کی عظیم ترین اکثریت کو پورا پورا بھروسہ تھا - اس پہلو سے بھی دیکیھئے کہ عالمی میڈیا میں ہر دور میں پاکستانیوں کے لیئے کسی بھی شعبے میں مسابقت کی مد میں خفت و شرمندگی کے ایک نہیں کئی حوالے موجود رہے ہیں اور خاص طور پہ تعلیم اور معاشی درجہ بندیوں کی فہرست تو پشیمانی سے پیشانیاں عرق آلود کرے دیتی ہے اتنی ترقی کے باوجود آج بھی معاشی رتبے میں پاکستان کا 117 واں نمبر ہے اور تعلیم کی ضمن میں اسکا مقام عالم اقوام میں 134 ویں درجہ پست ہے ۔۔۔ لیکن یہ سب خجالتیں اس وقت ذرا ماند پڑجاتی ہیں کہ جب گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ ساری دنیا کو یہ بتاتا ہے کہ سماجی خدمات کے شعبے میں پاکستان اقوام عالم میں اس مد میں سب پہ بازی لے گیا ہے کہ یہآں دنیا کا سب سے بڑا ایمبولینس نیٹ ورک موجود ہے اور یہ نیٹ ورک ایدھی ٹرسٹ کا ہے اور اب تو اس میں کئی ایئر ایمبولینسیں اور طیارے بھی شامل فہرست ہوگئے ہیں - اور یہی نہیں کہ انکی بہبود عامہ کا دائرہ صرف بے سہرا انسانوں تک ہی محدود تھا ۔۔۔ انہوں نے لاوارث اور زخمی و بیمار جانوروں کے لیئے کراچی میں ایک بڑا اینیمل ہوم بھی قائم کیا کہ جس میں 12 ہزار سے زائد مختلف قسموں کے جانور بھی زیرکفالت رکھے گئے ہیں - اور یہ سب جناتی کام کرنے میں انہوں نے کبھی کسی حکومت اور اسارے سے کبھی کوئی مدد نہیں لی اور انکی خطیر امدادی پیشکشوں کو وہ بڑی نرمی و شائستگی سے مسترد کرتے رہے
ہر بڑے آدمی طرح ایدھی صاحب کو بھی چند انگلیاں اٹھانے والے دستیاب رہے کہ شاید انہی لوگوں کی بھرپور توجہ و تنقیدی جہد مسلسل کسی حقیقی بڑے آدمی کو ابھارنے کے لیئے بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ،،، ان پہ مسلسل کئی گھناؤنے الزامات بھی لگائے جاتے رہے لیکن انکا کامل 60 برس سے زائد بے نیازانہ اپنے سماجی فلاح کے کام میں لگے رہنا اور اس قسم کے معترضین کی بدگوئیوں کا کوئی نوٹس نہ لینا ہمیشہ انکا شعار رہا اور رفتہ رفتہ ان بدگمان لوگوں کی بڑی تعداد کھسیا کر خودہی انکے رستے سے ہٹ جانے پہ مجبور بھی ہوتی رہی - انکی ان بے پایاں سمجی فلاحی خدمات کے اعتراف میں ویسے تو پاکستان کی حکومت اپناسب سے بڑا سول اعزاز دو مرتبہ دے چکی ہے لیکن مختلف حلقوں کی طرف سے انہیں نوبل پرائز دینے کا مطالبہ بھی سننے میں آرہا ہے تاہم اس ضمن میں میرا کہنا یہ ہے کہ انسانیت کے لیئے ایدھی صاحب کے پہاڑ جیسے کام کو دیکھا جائے تو وہ انکے فلاحی کارناموں کے سامنے یکدم ہیچ ہے بلکہ مناسب تو یہ ہے کہ پاکستانی حکومت انکے کارناموں کےحقیقی طور پہ اعتراف کرنے کے ثبوت کے طور پہ اقوام عالم میں عظیم سماجی خدمات انجام دینے پہ ہرسال ایک ایدھی نشان خدمت نامی تمغہ جاری کرے تاکہ قوم کے اس محسن کے عظیم کاناموں کی یاد عالمی سطح پہ بھی ہمیشہ زندہ رکھی جاسکے-
No comments:
Post a Comment