متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر
عمران فاروق کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ملزم خالد شمیم کی ویڈیو منظر عام
پر آنے کے واقعے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم نے اڈیالہ جیل کے سپرنٹینڈنٹ اور
دیگر دو اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کی سفارش کی ہے۔
ہوم
سیکریٹری پنجاب کی سربراہی میں قائم ہونے والی اس کمیٹی نے جیل سپرنٹینڈیٹ
سعیداللہ گوندل کے علاوہ دو اہلکاروں کے بیانات بھی ریکارڈ کیےگئے ہیں۔محمکہ جیل خانہ جات کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ان اہلکاروں کی طرف سے بیانات ریکارڈ کروانے کے بعد کمیٹی نے ان افراد سے اس معاملے پر سوالات بھی کیے جن کا وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔
جیل حکام کا موقف ہے کہ یہ ویڈیو اڈیالہ جیل کے اندر نہیں بنائی گئی اور اس بات کے امکانات بھی بہت زیادہ ہیں کہ یہ ویڈیو اس وقت کی ہوسکتی ہے جب وہ اس مقدمے کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کی تحویل میں تھے۔
ملزم خالد شمیم کا ویڈیو بیان متعدد نجی ٹی وی چینلز پر اس وقت نشر کیا گیا جب وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اپنے برطانوی ہم منصب اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔
ملزم خالد شمیم نے اس ویڈیو بیان میں الزام عائد کیا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے سابق رہنما اور نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین کے روح رواں مصطفیٰ کمال کو اس وقت ٹیلی فون کرکے کہا تھا کہ ’کام ہوگیا‘ جب ڈاکٹر عمران فاروق کی میت پاکستان لائی گئی تھی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے برطانیہ کے دورے کے دوران یہ خبریں بھی سامنے آ رہی تھیں کہ سکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے مقدمے کے علاوہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے پاکستان آ رہی ہے۔ وزارت داخلہ نے ان خبروں کی تردید نہیں کی ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے مقدمے کی سماعت انسداد دہشت گردی کی دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ متعلقہ جج ہی اس مقدمے کی سماعت جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کوثر عباس زیدی نے اس مقدمے کی سماعت کرنے سے انکار کردیا تھا۔
ادھر ایم کیو ایم کی قیادت نے اس ویڈیو کے منظر عام آنے کے تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment