کمیشن چونگاں اور داغ دھبے

barq@email.com
آج کل ہم پاکستان کی تیسری سب سے بڑی پیداوار کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے ہیں کیونکہ سیاسی، پیاسی اور قیاسی حلقوں میں یہ بات زور و شور سے چل رہی ہے کہ پانامہ لیکس پر تحقیقاتی کمیشن؟؟؟
زبان پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے حلق میں ’’قے قے‘‘……
شعر مکمل نہیں ہو پایا کیوں کہ دل خراب ہو جائے اور معدے سے کچھ قے قے کی آواز آنے لگے تو کیسا شعر کہاں کا شعر؟ اس کے ساتھ ہی آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ تیسری برسی پیداوار جس کا ذکر ہو رہا ہے وہ یہی یہی یہی ہے، صرف کمیشن ہی اس پیداوار میں شامل نہیں بلکہ اس کی جڑوں میں کمیٹیاں اور ٹریبونل وغیرہ بھی اگتی رہی ہیں جو اسی تیسری بڑی پیداوار کا حصہ ہیں۔
یہ جو مشہور و معروف کڑوی سبزی چونگاں کے نام سے ملتی ہے یہ اکیلی دکیلی بالکل نہیں اگتی بلکہ دوسرے بڑے بڑے پیڑوں کی جڑ میں اس کا مقام ہوتا ہے کیونکہ چونگاں میں زمین سے نمکیات حاصل کرنے کی استعداد بالکل نہیں ہوتی، چونگاں کو آپ ’’چمچاں‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ اور چمچے ایک جیسی صفات رکھتی ہیں، یقین نہ ہو تو پہلے چونگاں کا ایک ٹکڑا چکھ لیجیے اس کے بعد کسی سیاسی لیڈر کے ’’چمچے‘‘ کو منہ لگا لیجیے جس طرح چمچوں کے لیے دیگ یا دیگچی ضروری ہوتی ہے ویسے ہی چونگاں کے لیے بھی دوسرے پیڑوں کی صبحت ضروری ہوتی ہے اور اتفاق سے یہ کمیشن بھی انھی صفات کا حامل ہے کہ ان کی جڑوں میں بھی کمیٹیاں اور ٹریبونل وغیرہ پائے جاتے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بات پاکستان کی تیسری پیداوار سے شروع ہو کر ’’چونگاں‘‘ پر کیوں پہنچ گئی تو جواباً عرض ہے کہ ’’چونگاں‘‘ کو ’’شوگر‘‘ کی بیماری کے لیے مفید بتاتا جاتا ہے اور یہ ’’کمیشن‘‘ چونکہ ان لوگوں کے کارناموں کے لیے قائم ہو گا جو اس ملک میں ستر سال سے مسلسل میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور مسلسل میٹھا میٹھا ہپ کا نتیجہ لازمی طور پر ’’نمک حرامی اور شکر حرامی‘‘ کی صورت میں نکلتا ہے کیونکہ علامہ نے بھی فارسی کی ایک مثل  میں کہا ہے کہ ’’گل مخور گل رامجو‘‘ یعنی جو مٹی کھاتا ہے اس کا رنگ تو پیلا پڑے گا ہی۔
اسی اصول پر اپنے حصے سے زیادہ میٹھا ہڑپنے والوں کو تو ذیابیطس لاحق ہو گا ہی اور جو نمک حرام یعنی شوگر والے ہو جاتے ہیں وہ لازماً پھر بلڈ پریشر یعنی شکر حرام بھی ہو جاتے ہیں اس لیے ان کا علاج صرف اور صرف چونگاں یا کمیشن ہی سے ہو سکتا ہے حالانکہ گبر سنگھ گبر نے ان امراض کے لیے ذرا مختلف نسخہ تجویز کیا ہوا ہے کہ سردار میں نے آپ کا نمک کھایا ہے … تو لے اب گولی کھا، لیکن ہم یعنی پاکستان کے ’’کالیے‘‘ جن کے لیے گبر نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ’’تیرا کیا بنے گا کالیا‘‘ بلکہ گبر سنگھ کے اقوال زرین کے شارحین کا کہنا ہے کہ ’’کالیا‘‘ دراصل پاکستان ہی ہے کیونکہ اس کے بارے میں آج تک کسی بھی ’’سنگھ‘‘ کو پتہ نہیں ہے کہ تیرا کیا بنے گا کالیا؟
حالانکہ  گبر سنگھ نے سوال کے ساتھ اسی وقت جواب بھی دیا تھا کہ تیرا کیا بنے گا کالیا اور پھر اسے بھی گولی کھلا دی اور وہ کالیا بھلا چنگا ہو کر نجات پا گیا، ثابت ہوا کہ اکثر امراض اور کالیوں کا تیر بہدف علاج ’’گولی بہدف‘‘ ہے لیکن پاکستان میں یہ کنفیوژن پایا جاتا ہے کہ کون سی گولی …؟ ۔ گبر نے جس گولی کے ذریعے کالیے کا علاج کیا تھا وہ گولی واقعی ہر مرض خاص طور پر دو پیروں والے ’’امراض‘‘ کے لیے بڑی شافی ہوتی ہے لیکن پاکستان میں پرابلم یہ ہے کہ ھمہ اقسام کی گولیاں ایک دوسرے کو کھلائی جاتی ہیں اور ’’کالیے‘‘ کے لیے ایک بھی گولی بچ نہیں رہی ہے۔
ہم بھی کدھر کو نکل گئے اصل بات ہم کمیشن عرف چونگاں کی کر رہے تھے جو شوگر کا علاج بتایا جاتا ہے لیکن یہ صرف ایک بھرم اور واہمہ ہی ہے نہ تو شوگر کے مریضوں یعنی شکر حراموں اور نمک حراموں کا علاج ’’چونگاں‘‘ ہے اور نہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ والوں کا علاج کمیشن ہے لیکن ہم اس کا کچھ بھی نہیں کر سکتے کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ وہم کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا، کڑوا ہونے کی وجہ سے یونہی لوگوں نے فرض کیا ہوا ہے کہ ’’چونگاں‘‘ کو میٹھے کی بیماری کے مقابل لایا جا سکتا ہے اور میٹھا میٹھا ہپ ہپ یعنی شکر حراموں اور نمک حراموں کا علاج کمیشن ہے حالانکہ، ایں خیال است و محال است و جنوں
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو؟
ارے ہاں وہ بات تو درمیاں ہی میں رہ گئی بے شک کمیشن اور اس کی جڑواں یعنی کمیٹیوں اور ٹریبونلوں کو پاکستان کی تیسری بڑی پیداوار کہا جا سکتا ہے لیکن پہلی اور دوسری پیداوار کے بارے میں تو آپ نے پوچھا ہی نہیں ۔ سب سے پہلی بڑی پیداوار تو ’’باتیں‘‘ ہیں اور اس پر ساری دنیا کا اتفاق ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پیداوار ’’باتوں‘‘ کی ہی ہے اور پاکستان کے ہر مسئلے کے ’’حل‘‘ تین ہیں اور یہ تین حل ہیں باتیں باتیں اور باتیں، دوسری بڑی پیداوار ’’پہلی ترجیح‘‘ کی ہے۔
پاکستان میں یہ جنس بے بہا یعنی پہلی ترجیح اتنی زیادہ پیدا ہوتی ہے کہ کسی گٹڑ میں بھی ہاتھ ڈالیے تو آٹھ دس پہلی ترجیحات نکل آئیں گی اور حکومتوں اور سرکاری محکموں اور سیاسی پارٹیوں کی پہلی ’’ترجیحات‘‘ کو اگر شمار کیا جائے تو سوئٹزر لینڈ میں اتنی گھڑیاں نہیں ہوں گی، عرب میں اتنے شیوخ نہیں ہوں گے اور چین میں اتنے چینی نہیں ہوں گے جتنے اپنے ہاں پہلی ترجیحات ہیں، ان میں بعض ترجیحات تو اتنی ’’سینئر‘‘ کہ ان کی بھنوئیں تک سفید ہو چلی ہیں اور ہر نئی حکومت اور پارٹی کی نئی نئی ترجیحات کا تو وہی حال ہے جو ’’کیچوے‘‘ کا بتایا جاتا ہے۔
علمائے خراطین یعنی کیچوے بتاتے ہیں کہ کیچوے کے اندر بیک وقت دو سو کے قریب پیدائشی عمل ہو رہے ہوتے ہیں، توبہ توبہ وہ کمیشن والی بات پھر لٹک گئی چلیے ابتدا ہی سے شروع کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ کمیشن کی ضرورت یوں ہوئی ارے ہاں یہ تو ہم بھول گئے صرف کمیشن نہیں بلکہ تحقیقاتی کمیشن کی بات ہو رہی ہے۔
دانشوران کرام اور تجزیہ نگاراں عظام کا کہنا ہے کہ کمیشن دراصل ایک واشنگ مشین ہے جس میں ’’گھر‘‘ بھر کے کپڑے دھلتے ہیں اور داغ دھبے نکالے جاتے ہیں جب گھر کے مالک دیکھتے ہیں کہ اہل خانہ کے کپڑے میلے ہو رہے ہیں یا دامنوں پر داغ ابھر رہے ہیں جیسا کہ ابھی ابھی ان پانامہ والوں نے پچکاری مار کر اجلے دامنوں کو داغدار کیا ہے۔ ایسے مواقع پر صرف کمیشن ہی ان داغ دھبوں کو دور کر سکتا ہے اور یہ بالکل سچ اس لیے ہے کہ منیر اور حمود الرحمن کمیشن سے لے کر آج تک جتنے بھی کمیشن بٹھائے یا لٹائے گئے ہیں انھوں نے یہی کام تو کیا ہے۔

No comments:

Pakistan Election 2018 View political party candidates, results

https://www.geo.tv/election/candidates