پاناما لیکس میں سامنے آنے والے
انکشافات اور وزیر اعظم کے خاندان پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے
سٹیٹ بینک آف پاکستان اور فیڈرل بیورو آف ریوینو کے محدود اختیارات اور
دائرہ کار کی وجہ سے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی اپوزیشن
جماعتیں وزیر اعظم سے یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ خود کو کرپشن سے پاک اور
بے گناہ ثابت کریں۔ اس ضمن میں جو نکتہ بہت زور و شور سے اٹھایا جا رہا ہے
وہ یہ ہے کہ لندن میں مے فیئر کے علاقے میں جو فلیٹس وزیر اعظم کے زیر تصرف
رہے ہیں ان کو خریدنے کے لیے رقم کن ذرائع سے کب پاکستان سے بیرون ملک
بھیجی گئی۔اس ضمن میں سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ پاناما لیکس کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن اور دیگر ادارے پاکستانی قانون اور دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں کے تحت کس قدر بااختیار ہیں؟
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے جن کا تعلق اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی سے ہے، بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کمیٹی قانونی اور معاشی امور کے ماہرین سے بریفنگ لے رہی ہے اور جلد حکومت کو اپنی تجاویز دے گی کہ پاناما لیکس پر کس طریقے سے تحقیقات کی جائیں۔
’الزام ثابت ہوا تو گھر چلا جاؤں گا‘انھوں نے بتایا کہ گذشتہ روز کمیٹی کو بریفنگ دینے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایک سابق قانونی ماہر محمود مانڈوی والا کو بلوایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی اجلاس میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس کا دائرہ کار محدود ہے وہ پاکستان کا مرکزی بینک ہے اور وہ پاناما لیکس پر کوئی تحقیقات نہیں کر سکتا تاہم وہ کمیشن کی معاونت کرنے کے لیے تیار ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ کمیٹی کو بتایاگیا کہ پاکستان او ای سی ڈی، معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم کا ممبر نہیں جس میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جہاں ٹیکس کو باآسانی چھپایا جاسکتا ہے۔
یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاکستان نے دو یا دو سے زائد ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدوں میں سے کوئی معاہدہ نہیں کر رکھا جس کے تحت فورنزک آڈٹ کیا جا سکے۔
سلیم مانڈی والا کہتے ہیں کہ ایف بی آر کے حکام پانچ مئی کو کمیٹی کو بریفنگ دیں گے۔
تاہم ایف بی آر کے اختیارات پر بات کرتے ہوئے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قانونی طور پر ایف بی آر بھی اس سلسلے میں محدود اختیار رکھتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اگر ایف بی آر کے پاس مصدقہ اطلاعات ہوں تب بھی محدود اختیارات ہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ پانچ سال سے پیچھے نہیں جا سکتے، سرمایہ کاری صرف پچھلے پانچ سال کے اندر ہو تو اس کی تحقیقات کی جا سکتی ہیں اور اسے ریٹرن فائل کرنے کے لیے نوٹس دے سکتے ہیں۔
’اگر پاکستان کے اندر کوئی آف شور کمپنی ایف بی آر کے علم میں آجائے کہ تو پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ شیئر ہولڈرز پاکستانی نیشنل ہونے کے ساتھ ٹیکس کی ادائیگی کے لیے یہاں کے مقیم بھی ہیں یا نہیں، کیونکہ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں شاید ایف بی آر کے برعکس قومی احتساب بیورو اور ایف آئی اے زیادہ معاون ثابت ہو سکیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا سمجھتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ’جب قانون ہی نہیں تو آپ کیسے باہر جائیں گے۔ کمیشن کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کے سوئس اکاؤنٹس کی تحقیقات پر 40 لاکھ ڈالر خرچ ہوئے۔
سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاناما لیکس کے ذریعے سب کچھ باہر آگیا ہے اب وزیراعظم کی ذمہ داری ہے کہ ’وہ اپنی بے گناہی ثابت کریں۔‘
’انکم ٹیکس کے واجبات تک رسائی ہے، جو وزیراعظم نے اپنے اثاثے ظاہر کیے ان تک رسائی ہے۔ آپ کو جو پیسے پاکستان سے ٹرانسفر کیے ان کی تفصیلات دیں اور اگر پاکستان سے نہیں کہیں اور سے کیے تو بھی بتائیں۔‘
قائمہ کمیٹی کے رکن اور پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر محسن عزیز نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کے مختلف ممالک سے معاہدے نہیں اور کچھ حد تک ملکی سطح پر بھی قانونی دشواریاں ہیں تاہم ان کی جماعت جو بات کر رہی ہے وہ اخلاقی سطح پر کر رہی ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ فورنزک ماہرین سے آڈٹ کروا لیں تو بہتر ہے۔
’اگر ایک شخص الزام سے صاف ہونا چاہتا ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ میں قانون کی غلط تشریح کے پیچھے نہیں چھپنا چاہتا ۔۔۔ میری تحقیقات کریں۔‘
قائمہ کمیٹی کے رکن اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر الیاس بلور کہتے ہیں کہ ان کی جماعت نہیں سمجھتی کہ وزیراعظم کو مستعفی ہونا چاہیے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی بریفنگ کے بعد بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ یہ تحقیقات مشکل ہیں تاہم ناممکن نہیں اب ہمیں فوری طور پر قانون بنانا چاہیے اور مختلف ممالک سے معاہدے کیے جائیں کیونکہ سیاست دان ہی نہیں بلکہ بہت سے تاجر اور جنرلز بھی اس قسم کے امور میں ملوث ہیں۔
No comments:
Post a Comment