منفرد نیوزکاسٹر کی زبانی اپنے بیاہ کی دلچسپ کہانی ۔ فوٹو : فائل
ہماری شادی کیا تھی فاطمہ ثریا بجیا کا ٹی وی ڈرامہ تھا جس میں بے شمار کردار وں نے ’’انٹری‘‘ ماری۔ اوپر سے بارش آگئی، ایسی دھواں دارکہ لوگ نکاح کے وقت قناتیں پکڑ کر کھڑے رہے، ورنہ امکان تھا کہ دولہا کی پگڑی کے ساتھ ساتھ نکاح نامہ بھی کہیں ہوا میں اْڑ جاتا۔اور ہم اْس پر دستخط کے لیے پیچھے پیچھے بھاگتے رہتے اور کہاں کے کہاں پہنچ جاتے۔ اِسی پر بس نہ ہوئی۔ ولیمے والے دِن ایسا شدید طوفان آیا کہ سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔
صدر ضیا ا لحق کو اِس میں شرکت کرنے آنا تھا، وہ پشاور کے دورے پر تھے، اْن کے ہیلی کاپٹرکو راستے میں کسی گاؤں میں اترنا پڑا اور وہ بہت دیر سے پہنچے۔ آتے ہی میری والدہ سے کہنے لگے ’’ لگتا ہے آپ کے بیٹے نے ہانڈیاں چاٹی ہیں،جبھی سب جل تھل ہو گیا۔‘‘ اْن کے جاتے ہی مہمانوں کا سمندر اْمڈ آیا ،جنھیں سکیورٹی نے دور دور روکا ہوا تھا۔اْن میں وہ بھی تھے جنھیں بلایا تھا۔ زیادہ تر ایسے تھے جو بِن بلائے تھے اور محض صدر ضیاالحق کا سن کر چلے آئے۔جیسے ولیمہ نہ ہوا ایک تماشہ ہوا۔
5اپریل 1982ء کو ہماری شادی تھی، ہم نے سوچ سمجھ کر یہ تاریخ رکھی تھی۔تب اسلام آباد میں خوشگوار موسم ہواکرتا ہے۔ نہ گرمی نہ سردی بلکہ بہار کا ساموسم۔ بارش کا بھی کوئی امکان نہیں ہوتالیکن جناب اللہ نے بھی تو اپنی شان دکھانی تھی۔ حیرت انگیز اور دھماکا خیز آمد صدر ضیاالحق کی تھی جِن کے آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ شرکت کریں گے۔
قصّہ یہ ہے کہ ہر23 مارچ کو ضیا صاحب سے ملاقات ہوتی۔ راولپنڈی کے ریس کورس گراؤنڈ میں سالانہ فوجی پریڈ انجام پاتی جِس کی سلامی صدر ضیا لیتے ۔ اور ہماری ذمے داری اْس پر براہِ راست رواں تبصرہ کرنا تھا۔پہلے سال ہی اْنھوں نے شاباش دینے کے لیے ہماری پوری ٹیم کو اپنے گھر پر بلایا۔ اْس کے بعد یہ معمول بن گیا۔
1982ء میں ملنے گئے تو میں نے اْنھیں دعوت نامہ پیش کیا۔اْنھوں نے بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کارڈ اپنے اے ڈی سی کو دیا اور کہا ’’ہم آئیں گے۔‘‘بات آئی گئی ہو گئی۔ہم نے سوچا کہ اْنھوں نے دل رکھنے کو کہہ دیا۔ اْن کو آنے کا کہاں وقت ملے گا۔ اْدھر سے کوئی اطلاع نہیں آئی، اِس لئے، بھول گئے اور شادی کے ہنگاموں میں گم ہو گئے۔
ولیمے کے دن صبح کے وقت میں مونا کے ساتھ اپنے نانا اور رشتے کی ایک بزرگ خاتون کوسلام کرنے نکل گیا۔ وہ شادی میں نہیں آسکے تھے۔ ابھی ہم وہاں پہنچے ہی تھے کہ ایک پیغامبر بھاگتا ہوا آیا کہ جلدی واپس آئیں،صدر صاحب آرہے ہیں۔میں نے پوچھا، کون سے صدر صاحب؟اْس نے کہا ’’ضیا صاحب‘‘۔میں نے کہا کہ غلط فہمی ہوئی ہو گی، کسی انجمن کے صدر آرہے ہوں گے۔جب اْس نے اصرار کیا تو ہم واپس گھر پہنچے۔وہاں دیکھا کہ سیکورٹی کے سربراہ اور اْن کا عملہ بیٹھا ہوا تھا۔
اْنھوں نے سارے انتظامات دیکھے اور ہر طرح اطمینان حاصل کرنے کے بعد اپنا خصوصی عملہ وہاں تعینات کرنے کی اجازت حاصل کی۔اْس کے بعد ہمارے گھر کے چاروں طرف اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی۔خصوصی کمانڈوز نے جگہیں سنبھال لیں۔ یہاں تک کہ گھر کے اندر بھی فوجی گھوم رہے تھے۔ لگا کہ مارشل لا آج لگا ہے۔مہمانوں کی فہرستیں بھی اْنھوں نے قبضے میں لے لیں اور کہا کہ بغیر اجازت کے کوئی اندر نہیں آئے گا۔
اِس بھاگ دوڑکا ایک فائدہ یہ ہوا کہ شہر کے دوسرے محکمے بھی حرکت میں آگئے۔گھر کے چاروں اطراف صفائی شروع ہوگئی اور خصوصی لائٹیں لگا دی گئیں، جس سے سارا علاقہ روشن ہو گیا۔ان کے لیے میں کئی روز سے کوشش کر رہا تھا۔ مگرکوئی ہِل جْل نہیں تھی۔ اب ایک دم دوڑ شروع ہو گئی۔اب مسئلہ یہ تھا کہ ولیمے کی دعوت شام کو تھی جِس کا انتظام باہر لان میں کیا گیا تھا۔ لیکن حکم یہ ملا کہ صدر صاحب کھانے میں شرکت نہیں کر یں گے۔ شام کو جلدی آکے کچھ دیر ٹھہر کر چلے جائیں گے۔چناں چہ کھانے کے سارے انتظامات روک کر چائے اور دوسرے لوازمات کا بندوبست کیا گیا۔
اِس دوران صدر کے ملٹری سیکرٹری، کرنل ظہیر ملک بھی رابطہ کرتے رہے۔میں نے جب اِس افراتفری کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اْن کا عملہ دعوت نامہ کہیں رکھ کر بھول گیا۔ ہماری طرح اْنھوں نے بھی یہ سوچا کہ کون سا صدر نے وہاں جانا ہے!مگر اخباروں نے شرارت کر ڈالی۔ صبح اخباروں میں شادی کی بڑی بڑی تصویروں کے ساتھ جب خبر چھپی تو صدر صاحب کی اْس پر نظر پڑی۔فوراً اْنھوں نے استفسار کیا کہ اِس شادی میں تو ہمیں شرکت کرنی تھی۔اب وہاں دعوت نامے کی ڈھونڈ پڑ گئی اور جب کارڈ ملا تو وہ ولیمے کی دعوت تھی۔ سٹاف کی جان میں جان آئی۔ فوراً بتایا گیا ’’ سر! آپ کا بلاوا آج ولیمے میں ہے‘‘۔ لیکن اْس دِن اْنھیں پشاور کسی ضروری میٹنگ میں جانا تھا اور واپسی میں ڈنر میں شرکت کرنا تھی۔لیکن اْن کا اصرار تھا کہ میں تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی،مبارکباد دینے جاؤں گا ضرور۔
ہمیں اْن کی آمد کا وقت شام پانچ بجے بتایا گیا۔لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ، لڑکی کی تلاش سے لے کر شادی تک کوئی کام ہمارا آسان نہ تھا۔لہٰذا جناب، شام ہوتے ہی آندھی آگئی۔ آندھی کیا تھی طوفان تھاجو پورے اسلام آباد،پنڈی اور پشاور تک کے علاقوں میں آیااور جس نے سب کچھ تہہ و بالا کر ڈالا۔ صدر صاحب کا ہیلی کا پٹر پشاور سے واپسی میں راستے میں کہیں اتارنا پڑا،جہاں اْنھوں نے مغرب کی نماز ادا کی۔
ایک بار پھر اْن کی آمد کے امکانات معدوم ہونے لگے۔ہم شش وپنج میں مبتلا ہو گئے۔سیکورٹی کے باعث ولیمے کے دوسرے انتظامات بھی نہیں کیے جاسکتے تھے اور اوپر سے آندھی طوفان نے سب کچھ اکھاڑ پھینکا۔لیکن شاید اْن کا ارادہ مصمم تھا یا ہماری دعائیں تھیں کہ شام سات بجے کے قریب اطلاع ملی ، مہمانِ گرامی پہنچنے والے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد موٹروں کا قافلہ گھر کے سامنے آکر رکا اور صدر صاحب،سفید شیروانی میں ملبوس مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ تشریف لائے۔ میری والدہ مرحومہ نے بڑے خوبصورت الفاظ کے ساتھ اْن کا استقبال کیا۔سب کچھ ٹھیک جا رہا تھاکہ عین صدر صاحب کی آمد سے چند لمحے پہلے مووی بنانے والے کا کیمرہ گھبراہٹ میں ایسا گرا کہ اْس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ لہٰذا ولیمے کی ہمارے پاس کوئی ویڈیو نہیں۔شادی اور مہندی کی ویڈیو ہم نے امریکا آنے سے پہلے کسی کو دی کہ اسے امریکی سسٹم کے مطابق تبدیل کر دیں۔وہ اْن سے ایسی ضائع ہوئی کہ اب وہ ریکارڈ بھی نہیں۔بس کچھ تصویریں رہ گئی ہیں جِن میں سے ایک آپ دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن اصل تصویریں اور لمحے ذہن پر نقش ہیں۔کیسے کیسے محبت کرنے والے لوگ اِس میں اپنا خلوص نچھاور کرنے آئے اور اْن میں سے بہت سے اب دنیا میں نہیں رہے۔ہم کیسے بھول سکتے ہیں ،عبیداللہ بیگ مرحوم کو جنہوں نے نکاح کے بعد میرا سہرا پڑھااور مونا کے گواہ بنے۔پھر میری والدہ کیسے سایہ کیے ہوئی تھیں۔مونا کے والد مصطفی راہی،جو بیٹی کے گھر سے جانے پر کتنے غمزدہ تھے۔ بھائیوں سے بڑھ کر محمد عارف مرحوم،جن کی ترجمہ کی ہوئی خبریں کئی برس ہم نے پڑھیں۔غرض کس کس کو یاد کیجیے ،کسے بھول جائیے!
میں سمجھتا ہوں ، ہم دونوں کے والدین کی دعاؤں کے باعث شادی کو چار چاند لگے۔ہماری کسی نیکی کا صلہ یا ہمارے گھر میں مونا کے بھاگوان قدم کہ شادی کے آغاز پر ہی ایک صوفی گھرانے کے بزرگ،صاحبزادہ نصیر الدین نصیر گولڑویؒ نے خود آکر دعا فرمائی اور شادی کا سہرا بھی لکھا۔لاتعداد لوگوں نے اپنی محبت کے پھول نچھاور کیے۔اور پھر سربراہِ مملکت نے باوجود اتنی رکاوٹوں اور وقت کی قلت کے، ایک ادنیٰ سے فنکار کا مان اور عزت بڑھانے کی خاطر بنفسِ نفیس شرکت کر کے اْن لمحات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دیا۔