القاعدہ رہنمامیری رہائی کےبدلےاپنےلوگوں کی رہائی چاہتےتھے

gilani
[video flv="http://www.samaa.tv/urdu/wp-content/uploads/sites/11/2016/06/’القاعدہ-الظواہری-کی-رشتہ-داروں-کی-رہائی-چاہتی-تھی‘-BBC-Ur.flv"][/video]
لاہور : سابق وزیراعظم گیلانی کے بازیاب ہونے والے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کا کہنا ہے کہ القاعدہ ان کے بدلے ایمن الظواہری کے خاندان کی چند خواتین کو رہا کروانا چاہتی تھی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کا اپنے پہلے انٹرویو میں کہنا تھا کہ وہ تین سال تک القاعدہ کے قبضے میں رہے تھے اور کراچی سے تعلق رکھنے والا القاعدہ کا ایک اہم رکن ضیا ان کے ساتھ تین سال تک رہا۔
علی حیدر گیلانی کا کہنا ہے کہ وہ تین سال تک القاعدہ کے قبضے میں رہے تھے اور کراچی سے تعلق رکھنے والا القاعدہ کا ایک اہم رکن ضیا ان کے ساتھ تین سال تک رہا، القاعدہ میرے بدلے ڈاکٹر ایمن الظواہری کے خاندان کی چند قید خواتین کی رہائی اور بھاری رقم کا تقاضا کر رہی تھی۔
علی گیلانی کا کہنا تھا کہ اغوا سے قبل اگرچہ انھیں کوئی دھمکی نہیں ملی تھی تاہم انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ ان کا پیچھا کیا جا رہا ہے، ایک ہفتے قبل ایک دوست نے بتایا تھا کہ میری گاڑی کا پیچھا کیا جارہا ہے، بعد میں وہ گاڑی کہیں اور کھڑی دیکھی گئی، جہاں اس کی نمبر پلیٹ تبدیل کی جا رہی تھی۔
ALI Haider INSIDE HOME 11-051
میں اپنی سکیورٹی سے مطمئن تھا اور انتخابی کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے مطابق ہتھیاروں کی نمائش پر پابندی تھی، اس لیے میرے محافظوں نے ہتھیار گاڑی میں ہی چھوڑ دیئے تھے۔ علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ اغوا کے بعد انہیں کچھ عرصے تک فیصل آباد میں رکھا گیا جہاں سے انھیں وزیرستان منتقل کیا گیا۔ مجھے ملتان کے راستے فیصل آباد منتقل کیا گیا۔ ملتان سے فیصل آباد تک سفر میں کوئی پولیس چوکی نہیں آئی اور نہ کوئی کہیں چیکنگ ہوئی۔
مجھے کوئی ڈھائی ماہ تک فیصل آباد میں ایک مکان میں رکھا گیا، اخبار وہاں آتے تھے اس لیے اندازہ ہوا کہ یہ فیصل آباد ہے۔ انہوں نے مجھے زنجیر سے باندھ کر رکھا بلکہ بعض اوقات وہ رات کو سوتے ہوئے ہاتھوں میں بھی زنجـیر پہنا دیتے تھے، وہاں انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے وزیرستان لے کر جا رہے ہیں دو ماہ کے لیے جہاں سے وہ مجھے رہا کر دیں گے کیونکہ ان کی میرے خاندان سے ڈیل ہوگئی ہے۔ شاید وہ یقینی بنانا چاہتے تھے کہ سفر کے دوران میں کہیں مزاحمت نہ کروں۔
علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ انھیں جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ ڈرون حملوں میں القاعدہ برصغیر کے رہنما اور لاہور سے اغوا کیے گئے امریکی شہری ڈاکٹر وارن وائنسٹائن کی ہلاکت کے بعد انھیں طالبان کے حوالے کر دیا گیا تھا، طالبان مجھے شوال لے گئے، یہ سجنا گروپ تھا جن کے پاس میں نے چودہ ماہ گزارے، تاریخ، دن اور ماہ مجھے اس لیے آج بھی یاد ہیں کہ میں تواتر سے ڈائری لکھتا تھا جو وہ باقاعدگی سے جلا دیتے تھے۔ انھوں نے مجھے پڑھنے کے لیے کتابیں بھی دی تھیں۔‘
قید کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے علی حیدر کا کہنا تھا ’قید کے دوران میں نے 14 ماہ تک آسمان نہیں دیکھا۔ کمرے میں ایک بلب 24 گھنٹے جلتا رہتا تھا۔ قدرتی روشنی ناپید تھی۔ میں نے ایک دن تنگ آ کر اغوا کاروں سے کہا کہ کم از کم یہ بلب رات کے وقت تو بند کر دیا کرو تاکہ مجھے دن اور رات کا کوئی اندازہ تو ہو۔‘
ALI Haider INSIDE HOME 11-05
انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات پر ایمان تھا کہ اللہ مدد کرے گا، دوسری امید کہ ایک دن رہائی نصیب ہوگی اور تیسرا صبر۔ یہ تینوں مجھے اچھی ذہنی حالت میں رکھنے کے لیے اہم تھیں۔ میں نے اپنے کمرے کی دیوار پر لکھا ہوا تھا ’وکٹری کمز ود پیشینس’ یعنی فتح صبر سے ملتی ہے۔ میں روزانہ اٹھ کر یہ پڑھتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو کرکٹ کا شوق تھا، ورلڈ کپ کے دوران جب پاکستان جنوبی افریقہ کے خلاف میچ کھیل رہا تھا تو میں نے اپنے اغوا کاروں سے درخواست کی کہ مجھے میچ دیکھنے دیں، انہوں نے ٹی وی تو نہیں لیکن ریڈیو کا بندوبست کر دیا۔ کمرے کے اندر سگنل صاف نہیں آ رہے تھے، لہٰذا میں ریڈیو اور سلیپنگ بیگ لے کر باہر آگیا، پھر وہ میچ میں نے برفباری کے دوران سنا اور پاکستان جیت گیا تو خوشی کی انتہا بھی نہ تھی۔
جب بمباری شروع ہوتی تھی تو وہ ہمیں لے کر باہر کھلے علاقے میں چلے جاتے تھے، میں نے سو گز کے فاصلے سے جیٹ طیارے کا حملہ دیکھا ہے، پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کی ہلاکت کے بعد میں نے پاکستانی فضائیہ کی دتہ خیل پر بمباری دیکھی تھی، خوفناک آوازیں ہوتی تھیں، نشانہ ٹھیک لگاتے تھے لیکن ان گھروں میں اکثر کوئی نہیں ہوتا تھا، شدت پسند پہلے ہی نکل جاتے تھے۔
اس سال فروری میں جب پاکستان فوج نے دتہ خیل اور شوال میں کارروائی شروع کی تو مجھے افغانستان منتقل کر دیا گیا۔ وہاں کے علاقوں کے نام مجھے نہیں معلوم لیکن شاید پکتیکا کا علاقہ تھا۔ ہم نے وہاں بھی دو تین مقامات تبدیل کیے۔ دورانِ قید اہلخانہ سے رابطوں کے بارے میں بتاتے ہوئے علی حیدر گیلانی نے کہا ’انھوں نے دو سال میں صرف دو مرتبہ میری بات گھر کروائی تھی افغان موبائل سم سے۔ ایک مرتبہ والدہ سے بات کی تھی اور دوسری مرتبہ والد سے، انہوں نے میری کئی ویڈیوز بھی بنائیں لیکن جاری دو ہی کیں جن میں میں حکومت اور اپنے خاندان سے ان کی بات سننے کو کہتا تھا۔
160511092136_ali_haider_gillani_rescue_640x360__nocredit
بازیابی کے آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے علی حیدر نے کہا جب نو مئی کا دن آیا، اس روز اتفاق سے میں بہت افسردہ تھا، شام کو القاعدہ کا آدمی آیا اور کہا کہ آج چھاپہ پڑے گا، نماز عشا کے بعد وہ مجھے مکان سے باہر لے گئے، وہ مجھے پاکستان کی جانب لے جا رہے تھے اتنا تو اندازہ تھا، مجھے سرحدی پہاڑ دکھائی دے رہے تھے، میرے پاؤں کے چپل اتر گئے تھے، ایسے میں دو امریکی شنوک ہیلی کاپٹر اور شاید دو بغیر آواز والے کوبرا تھے جو ہم پر روشنی ڈال رہے تھے، میرے اغوا کار نے پہلے کہا لیٹ جاؤ میں لیٹ گیا پھر کہا بھاگو۔‘
میں اغوا کاروں کے ساتھ بھاگنے کی بجائے دوسری سمت میں دوڑا، تین چار فائر ہوئے، مجھے یقین تھا کہ میں بھی مارا جاؤں گا، بس یہ چند سیکنڈز کی دوری نے مجھے بچا لیا۔ القاعدہ کے اغوا کار کے مرنے کے بعد امریکیوں نے مجھ سے پشتو میں کچھ کہا۔ میں نے چیخ کر جواب دیا انگلش۔ تو انہوں نے پھر مجھے قمیض اتارنے اور ہاتھ اونچے کرنے کی ہدایات دیں، امریکی فوجی آیا اور اس نے میرے ہاتھ پیچھے باندھ دیئے۔
160627072720_ali_haider_gillani_640x360_bbc_nocredit
میں نے اسے اپنا تعارف کروایا کہ میں علی حیدر گیلانی ہوں اور میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم کا بیٹا ہوں، تو وہ حیران ہوا، اس نے میری آنکھوں میں روشنی ڈال کر دیکھا اور کہا کہ اس کا رنگ تو نہیں ملتا۔ پھر سر دیکھا اور کہا کہ ہیئر لائن بھی نہیں ملتی، شاید وہ کسی اور کے ساتھ مجھے ملا رہے تھے، پھر اس نے اپنے ہیڈکوارٹر سے رابطہ کیا اور منٹوں میں تصدیق آ گئی تو اس نے مجھ سے کہا۔ ’مسٹر گیلانی یو آر گوئنگ ہوم۔ اور پھر مجھے پاکستانی حکام کے حوالے کردیا گیا۔

No comments:

Pakistan Election 2018 View political party candidates, results

https://www.geo.tv/election/candidates